حضرت خباب بن ارت رضی اللہ عنہٗ عربی النسل ہیں۔ دورِ جاہلیت میں غلام بنا کر مکہ میں بیچ دیے گئے تھے۔ نسباً تمیمی ،بنو خزاعہ کے غلام اوربنو عوف کے حلیف تھے۔ آپؓ پہلے ایمان لانے والوں میں سے ہیں۔ وہ خوش نصیب بزرگ ہیں، جو دعوتِ اسلام کے بالکل ابتدائی مراحل میں یعنی دارِ ارقم میں حضور اکرمؐ کے مرکز بنانے سے قبل ہی مشرف بہ اسلام ہوئے۔ حضرت خبابؓ ان صحابہ کرام میں سے ہیں جو رزقِ حلال کمانے میں ہرقسم کی مشقت اٹھاتے تھے۔ آپؓ لوہار کا پیشہ اختیار کیے ہوئے تھے۔ عاص بن وائل نے آپؓ سے کام کروایا اور اس کی مزدوری نہ دی۔ اس کے ذمے قرض ہوگیا تو وہ آپؓ کو تنگ کرتا کہ جب تک محمدؐ کا انکار نہ کرو تو قرض واپس نہ کروں گا۔ آپ نے فرمایا: ’’ایسا تو ممکن نہیں!‘‘ آپؓ کے اسلام قبول کرنے کے زمانے میں اسلام کا اظہار مکہ کے نظام میں ایسا سخت جرم تھا،جس کی سزا میں مال و دولت، ننگ و ناموس ہر چیز سے ہاتھ دھونا پڑتا تھا، لیکن حضرت خبابؓ نے اس کی بالکل پر واہ نہ کی اور علیٰ الاعلان اسلام کا اظہار کرنے والے چند افراد میں شامل ہوئے۔ آپؓ غلام تھے، جن کا کوئی بھی حامی ومددگار نہ تھا، اس لیے کفار نے آپؓ کو مشقِ ستم بنا لیا اوران کو بڑی درد ناک سزائیں دیتے تھے۔ ننگی پیٹھ کو دہکتے ہوئے انگاروں پر لٹاکر سینے پر ایک بھاری پتھر رکھ کر ایک آدمی اوپر سے مسلتا اوروہ اس وقت تک ان انگاروں پر کباب ہوتے رہتے، جب تک خود زخموں کی رطوبت آگ کو نہ بجھاتی، لیکن اس سختی کے باوجود آپؓ کی زبان کلمۂ حق سے نہ پھرتی۔
چوںکہ مکی دور عدمِ تشدد کی پالیسی کا تھا، جس میں ضروری تھا کہ نظریۂ حق کی دعوت اور اس پر تربیت حاصل کرنی ہے۔ دشمن کی ہر اشتعال انگیزی کاجواب صبر و تحمل سے دینا ہے۔ طیش اور غصے میں نہیں آنا ہے۔ چناں چہ رحمۃ للعالمین اس کسمپرسی کی حالت میں حضرت خبابؓ کی تالیفِ قلب فرماتے اور ہمت دلاتے، لیکن ان کا آقا اتنا سنگ دل تھا کہ وہ ان کے لیے اتنا سہارا بھی نہ برداشت کرسکا اوراس کی سزا میں لوہا آگ میں تپاکر اس سے ان کا سر داغ دیا۔ بالآخر حضرت خبابؓ نے آپؐ سے کہا کہ: ’’میرے لیے بارگاہِ الٰہی میں دعا فرمائیں کہ وہ مجھے اس عذاب سے نجات دے‘‘۔ آپؐ نے دعا فرمائی کہ: ’’خدایا! خباب کی مددفرما‘‘۔ ان سب مشکلات کے باوجود حضرت خبابؓ دینِ حق کے علوم و معارف سے آراستہ رہے۔
حضرت خبابؓ مدتوں نہایت صبر و استقلال کے ساتھ یہ تمام مصیبتیں جھیلتے رہے۔ پھر جب ہجرت کی اجازت ملی تو آپؓ ہجرت کرکے مدینہ آگئے۔ یہ ہجرت تکلیف و مصائب کے خوف سے نہ کی تھی، بلکہ صرف اللہ کی رضا مندی کے لیے تھی۔ مدینہ آنے کے بعد آپؐ نے ان میں اور خراش بن صمہؓ غلامِ تمیم کے درمیان مواخات کرادی۔ آپؓ مدنی دور میں بھی تمام اجتماعی اور دینی خدمات انجام دیتے رہے، تمام غزوات میں شرکت کی اور فعال کردار ادا کرتے رہے۔
مسلمانوں میں اوّل دن سے ہی تعلیم قرآن کا شوق تھا اور مشکل ترین زمانے میں بھی قرآنی علوم و معارف سے آگاہی اپنی بنیادی ذمہ داری سمجھتے تھے۔ چناں چہ ایک مرتبہ حضرت خبابؓ حضرت عمرؓ کی بہن اور بہنوئی کو گھر میں قرآن حکیم سکھلا رہے تھے کہ عمر (قبل از اسلام) آ پہنچے اور حضرت خبابؓ گھر میں چھپ گئے۔ گویا غلام ہوکر بھی علمی کردار ادا کرتے ہیں ۔ حضرت خبابؓ کی علمی اور فکری نسبت بہت گہری ہے۔ حضرت معدیکرب کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم لوگ حضرت ابن مسعوؓد کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے سورہ طٓسٓمّ جو دو سو آیات پر مشتمل ہے، سنانے کی فرمائش کی تو انھوں نے فرمایا: ’’یہ سورت مجھے یاد نہیں ہے، البتہ تم ان صاحب کے پاس چلے جاؤ جنھوں نے اسے خود نبیؐ سے یاد اور حاصل کیا ہے، یعنی حضرت خبابؓ‘‘۔ چناں چہ ہم لوگ حضرت خبابؓ کے پاس آئے تو انھوں نے ہمیں وہ سورت پڑھ کر سنائی۔
حضرت خبابؓ کے فضائل کی وجہ سے حضرت فاروقِ اعظم ان کا بہت احترام کرتے تھے۔ ایک دن حضرت خبابؓ آپؓ سے ملنے گئے تو حضرت عمرؓ نے ان کو اِکراماً اپنی نشست گاہ پر بٹھایا اور لوگوں کو مخاطب کرکے فرمایا کہ: ’’ان کے علاوہ صرف ایک شخص اَور ہے جو اس پر بیٹھنے کا مستحق ہے۔ حضرت خبابؓ نے پوچھا امیر المؤمنین! وہ کون؟ فرمایا: بلالؓ! آپؓ نے عرض کیا: ’’وہ میرے برابر کیسے مستحق ہوسکتے ہیں؟ حال آںکہ مکی دور میں مشرکین میں ان کے بہت سے مدد گار تھے، لیکن میرا پوچھنے والا سوائے اللہ کے کوئی نہ تھا‘‘۔ آپؓ نے اس دور کی اپنے مصائب وآلام کی تاریخ سنائی اور اپنی پیٹھ دکھائی، جس کے خون و پانی سے آگ بجھا کرتی تھی۔
حضرت خبابؓ۳۷ھ میں کوفہ میں طویل عرصے تک سخت بیماری میں مبتلا رہے۔ آپؓ کوفہ میں وفات پانے والے سب سے پہلے صحابیٔ رسول ہیں۔ آپؓ کی وصیت کے مطابق کوفہ شہر کے باہر آپؓ کی تدفین کی گئی۔ آپ کی عمر 73 سال تھی۔ اس سے قبل لوگ مرنے والوں کو اپنے اپنے گھروں کے صحن یا دروازوں کے باہر دفنایا کرتے تھے۔ آپؓ کی وصیت سے یہ سنت جاری ہوگئی اور کوفہ شہر سے باہر قبرستان میں تدفین کو رواج ملا۔ آپؓ کی نماز ِجنازہ حضرت علیؓ نے پڑھائی اور آپؓ کی قبر پر کھڑے ہوکر آپؓکی بھرپور زندگی کا یوں تعارف کرایا: ’’اللہ خباب پر رحم فرمائے۔ اپنے شوق سے اسلام قبول کیا۔ دِلی رغبت سے ہجرت کی۔ مجاہدانہ جد و جہد سے بھرپور زندگی گزاری۔ جسمانی مرض میں مبتلا رہے۔ اللہ تعالیٰ اچھے عمل کرنے والوں کا اجر و ثواب ضائع نہیں کرتا‘‘۔
ٹیگز
مولانا قاضی محمد یوسف
مولانا قاضی محمد یوسف کا شمار حضرت اقدس شاہ سعید احمد رائے پوری ؒ کے خلفاء مجازین میں ہوتا ہے۔ مدرسہ اشرفیہ تعلیم القرآن (حسن ابدال) اور گوجرانوالا اور جامعہ مدنیہ لاہور میں زیر تعلیم رہے۔ 1988ء میں فاضل عربی/ فاضل اردو کی سند حاصل کرنے کے بعد پنجاب یونیورسٹی لاہور سے ایم۔اے اسلامیات اور طبیہ کالج راولپنڈی و نیشنل طبّی کونسل پاکستان سے طب کی باقاعدہ تعلیم بھی حاصل کی۔ 1980 کی دہائی میں دوران تعلیم حضرت مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ کی فکری جدوجہد سے منسلک ہوئے۔ 1991 میں جامعة الملك السعود الرياض سعودی عرب سے تدریب المعلمین کی سند حاصل کی. اس وقت آپ گورنمنٹ ڈگری کالج واہ کینٹ میں بطور استاد فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔’’جامعہ خادم علوم نبوۃ‘‘ حسن ابدال کے مہتمم اور جامعہ عائشہ صدیقہ حسن ابدال میں مدرس ہیں۔ مسجد خلفائے راشدین میں امامت و خطابت کے فرائض سرانجام دینے کے ساتھ ساتھ اپنا خاندانی مطب بھی چلا رہے ہیں۔ تعلیمی اور فلاحی ادارے "التقویٰ ٹرسٹ" کے سرپرست، کامیاب استاد و منتظم اور طبیب و خطیب ہیں۔ حضرت مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری مدظلہ کی سرپرستی میں خانقاہ رحیمیہ اور ادارہ رحیمیہ کے فکروعمل کی ترویج میں کوشاں ہیں۔ ماہنامہ مجلہ "رحیمیہ" میں "صحابہ کا ایمان افروز کردار" کے عنوان سے سلسلہ وار لکھ رہے ہیں۔
متعلقہ مضامین
اُمُّ المومنین حضرت اُمِ سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا
اُمُّ المومنین حضرت اُمِ سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے والد قریش کے چند مشہورِ زمانہ سخی افراد میں سے تھے۔ آپ کی والدہ عاتکہ بنت عامر کنانیہ تھیں، جن کا تعلق معزز قبیلہ بنوفراس …
خلافتِ راشدہ کے نظام میں وسیع تر بامعنی مشاورت اور آج کی جمہوریت
وطنِ عزیز کی سیاست اپنے روز ِقیام ہی سے مختلف نعروں سے عبارت رہی ہے، جیساکہ ہم نے گزشتہ ماہ کے شذرات میں یہاں اسلامی نظام کے نمائشی نعروں کے برعکس چند سنجیدہ گزارشات …
ابو عمارہ، سیّدِ شہدا ء حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہٗ
ابو عمارہ، سیّدِ شہداء حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہٗ مہاجرینِ اوّلین میں سے ہیں۔ آپؓ رسول اللہ ﷺ کے چچا، رضاعی بھائی اور آپؐ سے صرف دو سال بڑے تھے، گویا آپؐ کے ہم عمر تھے۔ حضرت ح…
حضرت ثابت بن قیس بن شماس اَنصاریؓ ’خطیبُ النبیؐ‘
حضرت ثابت بن قیس بن شماس خزرجیؓ اَنصار کے اور رسول اللہ ﷺ کے ’’خطیب‘‘ کے لقب سے ملقب تھے۔ فصاحت و بلاغت اور خطابت میں آپؓ کو بڑی مہارت حاصل تھی، اس …