حضرت جابر بن عبداللہ انصاری خزرجی رضی اللہ عنہٗ ہجرتِ مدینہ سے 16 سال قبل پیدا ہوئے۔ آپؓ کے دادا عمرو بن حرام انصاری اپنے قبیلے کے سردار تھے۔ بیعتِ عقبہ ثانیہ کے وقت آپؓ اپنے والد حضرت عبداللہ انصاریؓ کے ساتھ مسلمان ہوئے۔ اس موقع پر آپؓ کے والد بنوحرام کے نقیب مقرر ہوئے۔
آپؓ کے والدؓ غزوۂ اُحد میں شہید ہوئے اور اُن کا مثلہ کیا گیا۔ اس پر حضور اقدس ﷺ نے حضرت جابرؓ سے فرمایا: ’’جابر! تیرے والد سے اللہ تعالیٰ نے بالمشافہ کلام کیا، جب کہ باقیوں سے پردے کے پیچھے سے کلام کرتا ہے‘‘۔ آپؓ کا گھر مسجدِ نبویؐ سے ایک میل کے فاصلے پر تھا۔ آپؐ تمام نمازیں مسجدِ نبویؐ میں ادا کرتے تھے۔ آپؓ اپنے والد کی غزوۂ بدر اور غزوۂ اُحد میں شرکت کی وجہ سے خود ان غزوات میں شریک نہ ہوسکے تھے، لیکن اس کے بعد 19 کے قریب تمام بڑے غزوات میں نبی پاک ﷺ کے ساتھ شریک رہے۔ آپؓ نے بڑی عمر کی بیوہ سے شادی کی، تاکہ آپؓ کی 9 چھوٹی بہنوں کی تربیت و اُمورِ خانہ داری قائم رہ سکیں۔
حضرت جابرؓ نے غزوۂ خندق کے موقع پر آپ ﷺ کی دعوت کی۔ آپؐ نے صحابہ کرامؓ کے سامنے اعلان کرا دیا کہ جابر کے ہاں تمام اہلِ خندق کی دعوت ہے۔ چناں چہ اس موقع پر آپؐ کی برکت سے چند افراد کاکھانا 1400 صحابہ کرامؓ نے کھایا۔ ایک موقع پر آپؐ نے 25 بار حضرت جابرؓ کے لیے استغفار کی دعا پڑھی۔ آپؐ کو اگر قرض کی ضرورت پڑتی تو آپؐ حضرت جابرؓ سے قرض بھی لے لیتے تھے۔
حضرت جابرؓ سے سینکڑوں احادیث مروی ہیں، جن میں سے ایک یہ حدیث بھی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’میری اُمت میں سے ایک جماعت ہمیشہ حق پر رہے گی، یہاں تک کہ عیسیٰ علیہ السلام نازل ہوں‘‘۔ (صحیح مسلم) حضرت جابرؓ نے حضرت عبداللہ بن انیسؓ سے حدیث مبارک سیکھنے کے لیے شام اور حضرت مسلمہ بن مخلدؓ سے سننے کے لیے مصر کا طویل سفرکیا۔ حضرت جابرؓ نے طویل عمر پائی اور علومِ نبوت کا شوق تعلیم و تعلّم اور عملی میدانوں میں مسلسل جدو جہد کی صحبتِ نبویؐ کی فیض یابی کے ساتھ اجلہ صحابہ کرامؓ سے کسبِ فیض کیا اور مسجدِ نبویؐ میں اپنے حلقۂ درس سے ہزاروں طالبینِ علوم کو سیراب کیا۔ آپؓ تفسیر، حدیث اور فقہِ دین میں کمال درجے کی مہارت رکھتے تھے۔ آپؓ نے خلفائے راشدینؓ کے زمانے میں بھی مختلف سماجی ذمہ داریوں پر فائز رہ کر بھر پور کردار ادا کیا۔ تابعینؒ کے ہر طبقے نے آپؓ سے کسبِ فیض کیا ہے۔
۷۴ ہجری کے آخر میں آپؓ نے مدینہ طیبہ میں 94 سال کی عمر میں وفات پائی۔ آپؓ کی نماز جنازہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہٗ کے صاحبزادے نے پڑھائی اور جنت البقیع میں مدفون ہوئے۔
ٹیگز
مولانا قاضی محمد یوسف
مولانا قاضی محمد یوسف کا شمار حضرت اقدس شاہ سعید احمد رائے پوری ؒ کے خلفاء مجازین میں ہوتا ہے۔ مدرسہ اشرفیہ تعلیم القرآن (حسن ابدال) اور گوجرانوالا اور جامعہ مدنیہ لاہور میں زیر تعلیم رہے۔ 1988ء میں فاضل عربی/ فاضل اردو کی سند حاصل کرنے کے بعد پنجاب یونیورسٹی لاہور سے ایم۔اے اسلامیات اور طبیہ کالج راولپنڈی و نیشنل طبّی کونسل پاکستان سے طب کی باقاعدہ تعلیم بھی حاصل کی۔ 1980 کی دہائی میں دوران تعلیم حضرت مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ کی فکری جدوجہد سے منسلک ہوئے۔ 1991 میں جامعة الملك السعود الرياض سعودی عرب سے تدریب المعلمین کی سند حاصل کی. اس وقت آپ گورنمنٹ ڈگری کالج واہ کینٹ میں بطور استاد فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔’’جامعہ خادم علوم نبوۃ‘‘ حسن ابدال کے مہتمم اور جامعہ عائشہ صدیقہ حسن ابدال میں مدرس ہیں۔ مسجد خلفائے راشدین میں امامت و خطابت کے فرائض سرانجام دینے کے ساتھ ساتھ اپنا خاندانی مطب بھی چلا رہے ہیں۔ تعلیمی اور فلاحی ادارے "التقویٰ ٹرسٹ" کے سرپرست، کامیاب استاد و منتظم اور طبیب و خطیب ہیں۔ حضرت مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری مدظلہ کی سرپرستی میں خانقاہ رحیمیہ اور ادارہ رحیمیہ کے فکروعمل کی ترویج میں کوشاں ہیں۔ ماہنامہ مجلہ "رحیمیہ" میں "صحابہ کا ایمان افروز کردار" کے عنوان سے سلسلہ وار لکھ رہے ہیں۔
متعلقہ مضامین
اُمُّ المؤمنین حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا بنتِ حارث
اُمُّ المؤمنین حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا قبیلہ قریش سے تھیں۔ آپؓ کے والدین نے آپؓ کانام ’’برّہ‘‘ رکھا تھا۔ جب حضورؐ کے نکاح میں آئیں تو آپؐ نے ان کا نام …
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ - صحابہؓ کا ایمان افروز کردار
صحابہؓ کا ایمان افروز کردار حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ غزوۂ خیبر کے سال (۷ھ / 628ء) مسلمان ہوئے…
حضرت مولانا لقاء اللہ عثمانی پانی پتیؒ
کسی بھی قوم کی آزادی کی تحریک یقینا ہمت حوصلے اور جرأت سے عبارت ہوتی ہے۔ ہندوستان کی تحریکاتِ آزادی میں ٹھیک ایک صدی قبل جاری ہونے والی تحریکات میں بھی جن حریت پسند لوگوں…
حضرت ثابت بن قیس بن شماس اَنصاریؓ ’خطیبُ النبیؐ‘
حضرت ثابت بن قیس بن شماس خزرجیؓ اَنصار کے اور رسول اللہ ﷺ کے ’’خطیب‘‘ کے لقب سے ملقب تھے۔ فصاحت و بلاغت اور خطابت میں آپؓ کو بڑی مہارت حاصل تھی، اس …