حضرت حسان بن ثابتؓ کے آباؤاجداد کی چار پشتیں نہایت معمر گزریں۔ تاریخ میں عرب میں کسی خاندان کی چار پشتیں مسلسل اتنی بڑی عمر والی نہیں ملتیں۔ حضرت حسانؓ کے پردادا ’’حرام‘‘ کی عمر 120 سال تھی۔ ان کے بیٹے منذر، پوتے ثابت بن منذر اور پھر پڑپوتے حضرت حسان بن ثابتؓ سب نے یہی عمر پائی۔ حضرت حسانؓ کے خاندان میں نسل در نسل شاعر تھے۔ حضور ﷺ آپؓ کی شاعری کو پسند فرماتے تھے۔ اور مسجد ِنبویؐ میں منبر رکھوا دیتے، جس پر حسانؓ کھڑے ہو کر آپؐ کی مدح کرتے تھے اور آپؐ سن کر مسرور ہوتے تھے۔ ایک مرتبہ حضرت حسانؓ نے آپؐ کی مدح میں یہ شعر کہے ؎
مَتٰی یبدُ فی الدُّجٰی البہیم جَبِینُہ
یَلُح مِثلَ مِصبَاحِ الدُّجٰی المُتَوَقِّدِ
فَمَن کَانَ اَو مَن یَکُونُ کَاَحمَدٍ
نِظَامٌ لِحَقٍّ ، اَو نکاَلٌ لِمُلحِدٍ
(جب آپؐ کی پیشانی اندھیری رات میں ظاہر ہوتی ہے تو اس کی چمک نہایت روشن چراغ کی طرح ہوتی ہے۔پس احمدؐ کی مثل کون پیدا ہوا، یا کون آئندہ پیدا ہو سکتا ہے؟ آپؐ حق کا نظام ہیں اور ملحد کے لیے عذاب ہیں)۔ حضرت حسانؓ کی شاعری پُر از حکمت تھی، جس میں نصائح و عقل و دانائی کا کا فی سامان موجود ہے۔ چناں چہ آپؓ فرماتے ہیں ؎
وَ اِلزَم مُجَالَسۃَ الکِرَامِ وَ فِعلَھُم
وَ اِذا اِتَّبَعتَ فَاَبصِرَن مَن تَتبَعُ
لاَ تَتبَعَنّ غَوَایَۃً لِصَبابَۃٍ
اِنَّ الغَوَایَۃَ کُلَّ شَرٍّ تَجمَعُ
(سمجھ دار اور معزز لوگوں کی صحبت اختیا کر، اور اُن کے افعال کی اتباع کر۔ جب تُو کسی کی پیروی کرنے لگے تو اس بات پر اچھی طرح غور و فکر کر کہ تُو کس کی اتباع کر رہا ہے۔ عشق و محبت سے پیدا ہونے والی گمراہی کی کبھی بھی پیروی مت کر۔ یہ گمرا ہی ہر شر کو جمع کر دیتی ہے ( یعنی جذباتی بن کر اتباع نہیں، عقل مند بن کر کسی کے پیچھے چلو۔)
حضوؐر کی وفات کے بعد آپؐ کے جانشین حضرات ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے نزدیک بھی حضرت حسانؓ کا ایک بڑا مرتبہ تھا۔ انھیں مالِ غنیمت میں حصہ بھی دیتے رہے۔ خصوصاً حضرت عمرؓ نے اپنے دور میں تو حضرت حسانؓ کو ’’قاضی شعر‘‘ بنا یا تھا۔ جب حطیہ نے زباد بن بدر کی ہجو کی تو وہ حضرت عمرؓ کے پاس معاملہ لے کر آئے۔ حضرت عمرؓ نے اپنا فیصلہ نہیں سنایا۔ کیوں کہ شعر و شاعری سے آپؓ کو واقفیت نہیں تھی۔ لہٰذا آپؓ نے حضرت حسانؓ سے اس سلسلے میں مشورہ لیا اور انھیں اس معاملے کا قاضی بنایا۔ حضرت حسانؓ نے 120 برس کی عمر میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہٗ کے زمانۂ خلافت (۶۰ھ) میں وفات پائی۔( اُسد الغابۃ ، سیر الصحابہ، دیوانِ حسان )
ٹیگز
مولانا قاضی محمد یوسف
مولانا قاضی محمد یوسف کا شمار حضرت اقدس شاہ سعید احمد رائے پوری ؒ کے خلفاء مجازین میں ہوتا ہے۔ مدرسہ اشرفیہ تعلیم القرآن (حسن ابدال) اور گوجرانوالا اور جامعہ مدنیہ لاہور میں زیر تعلیم رہے۔ 1988ء میں فاضل عربی/ فاضل اردو کی سند حاصل کرنے کے بعد پنجاب یونیورسٹی لاہور سے ایم۔اے اسلامیات اور طبیہ کالج راولپنڈی و نیشنل طبّی کونسل پاکستان سے طب کی باقاعدہ تعلیم بھی حاصل کی۔ 1980 کی دہائی میں دوران تعلیم حضرت مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ کی فکری جدوجہد سے منسلک ہوئے۔ 1991 میں جامعة الملك السعود الرياض سعودی عرب سے تدریب المعلمین کی سند حاصل کی. اس وقت آپ گورنمنٹ ڈگری کالج واہ کینٹ میں بطور استاد فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔’’جامعہ خادم علوم نبوۃ‘‘ حسن ابدال کے مہتمم اور جامعہ عائشہ صدیقہ حسن ابدال میں مدرس ہیں۔ مسجد خلفائے راشدین میں امامت و خطابت کے فرائض سرانجام دینے کے ساتھ ساتھ اپنا خاندانی مطب بھی چلا رہے ہیں۔ تعلیمی اور فلاحی ادارے "التقویٰ ٹرسٹ" کے سرپرست، کامیاب استاد و منتظم اور طبیب و خطیب ہیں۔ حضرت مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری مدظلہ کی سرپرستی میں خانقاہ رحیمیہ اور ادارہ رحیمیہ کے فکروعمل کی ترویج میں کوشاں ہیں۔ ماہنامہ مجلہ "رحیمیہ" میں "صحابہ کا ایمان افروز کردار" کے عنوان سے سلسلہ وار لکھ رہے ہیں۔
متعلقہ مضامین
اُمُّ المومنین حضرت اُمِ سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا
اُمُّ المومنین حضرت اُمِ سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے والد قریش کے چند مشہورِ زمانہ سخی افراد میں سے تھے۔ آپ کی والدہ عاتکہ بنت عامر کنانیہ تھیں، جن کا تعلق معزز قبیلہ بنوفراس …
خلافتِ راشدہ کے نظام میں وسیع تر بامعنی مشاورت اور آج کی جمہوریت
وطنِ عزیز کی سیاست اپنے روز ِقیام ہی سے مختلف نعروں سے عبارت رہی ہے، جیساکہ ہم نے گزشتہ ماہ کے شذرات میں یہاں اسلامی نظام کے نمائشی نعروں کے برعکس چند سنجیدہ گزارشات …
ابو عمارہ، سیّدِ شہدا ء حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہٗ
ابو عمارہ، سیّدِ شہداء حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہٗ مہاجرینِ اوّلین میں سے ہیں۔ آپؓ رسول اللہ ﷺ کے چچا، رضاعی بھائی اور آپؐ سے صرف دو سال بڑے تھے، گویا آپؐ کے ہم عمر تھے۔ حضرت ح…
حضرت ثابت بن قیس بن شماس اَنصاریؓ ’خطیبُ النبیؐ‘
حضرت ثابت بن قیس بن شماس خزرجیؓ اَنصار کے اور رسول اللہ ﷺ کے ’’خطیب‘‘ کے لقب سے ملقب تھے۔ فصاحت و بلاغت اور خطابت میں آپؓ کو بڑی مہارت حاصل تھی، اس …