حضرت شاہ سعیداحمد رائے پوریؒ؛ فکر و عمل کے تناظر میں
ڈاکٹر محمد ناصر عبدالعزیز
( ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ لاہور کے السعید بلاک کی افتتاحی نشست میں کئے گئے ایک بیان کا خلاصہ)
حاضرین محترم! آج کا یہ دن ہمارے لیے عید کا سماں رکھتا ہے۔ آج اس خواب کو تعبیر ملی، جو ہمارے شیخ و مرشد حضرت اقدس مولانا شاہ سعیداحمد رائے پوری رحمة اللہ علیہ نے دیکھا تھا۔ آپؒ کی بڑی تمنا تھی کہ ادارے کی عمارت کشادہ اور کھلی ہوجائے اور دوستوں کو پروگراموں کے لیے سہولت مل جائے تاکہ آسانی کے ساتھ مشنری کام کو آگے بڑھایا جاسکے۔ آپ اس تمنا کی تکمیل کے لیے دعا گو رہتے تھے۔ اس مقام پر یہ بات سمجھی جاسکتی ہے کہ بزرگوں کی دعائوں میں کیا تاثیر ہوتی ہے اور یہ کہ ان دعائوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے جس ہمت اور مسلسل کوشش کی ضرورت ہوتی ہے، اگر وہ بروئے کار آجائے تو پھر دعائیں عملی شکل اختیار کرلیتی ہیں۔ خانقاہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کے موجودہ مسند نشین حضرت مولانا مفتی شاہ عبدالخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہ کی مہینوں بھر کی مسلسل محنت اور پوری جماعت کے تعاون کے نتیجے میں آج الحمدللہ دوستوں کو کشادہ اور سہولت والی جگہ میسر آگئی۔
عمارت اصل نہیں، بلکہ مشن اصل ہے
اس موقع پر یہ بات قابل توجہ ہے کہ عمارتیں اصل نہیں ہوا کرتیں، بلکہ اصل مشن ہوتا ہے۔ بلڈنگ تو ایک سہولت دیتی ہے۔ بنیادی مقصد وہ فکر ہوتا ہے، جس پر کسی بلڈنگ کو تاریخی حیثیت ملتی ہے۔ پیغمبر آخرالزماںﷺ بیت اللہ کے وارث ہےں۔ آپ سابقہ تمام انبیاعلیہم السلام کے فکر کے امین ہےں۔ آپ کے دور میں بیت اللہ کے مجاور اس مرکز ہدایت کے فکر اور مشن سے منحرف اور لاتعلق ہوگئے تھے۔ ان کی غفلت کی وَجہ سے بیت اللہ کا فکر دنیا کی آنکھوں سے اوجھل ہوگیا۔ بیت اللہ کی مرکزیت تقاضا کرتی تھی کہ اسے ایک امام اور رہبر ملے جو اس کے فکر کا احیا کرے۔ وہ امام رسول اللہ کی صورت میں ظاہر ہوئے۔ تو آپ اور جماعتِ صحابہؓ کی کوششوں سے بیت اللہ کا انسانیت دوست نظریہ چاردانگ عالم میں پھیل گیا۔
ادارہ رحیمیہ، ایک تاریخی فکر کا مرکز
ادارہ رحیمیہ دراصل ایک فکر اور اس پر مسلسل جدوجہد کا مرکز ہے۔ یہ فکر طویل تاریخی تسلسل سے حضرت مولانا شاہ سعیداحمد رائے پوریؒ کے ذریعے ہم تک پہنچا ہے۔ یہ فکر حضرت امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ سے شروع ہوا اور عہدبہ عہد آگے بڑھتے ہوئے حضرت شیخ الہند مولانا محمودحسنؒ اور حضرت شاہ عبدالرحیم رائے پوریؒ تک پہنچا۔ آپ دونوں یک جان و دو قالب کی حیثیت کے مالک تھے۔ حضرت عالی شاہ عبدالرحیم رائے پوری ؒ اپنے متوسلین میں اس فکر کی ترویج و اشاعت کے لیے حضرت شیخ الہندؒ کے ساتھ مل کر بھرپور کردار ادا کرتے رہے۔ حضرت شاہ سعیداحمد رائے پوریؒ اس رفاقت اور مشترکہ جدوجہد کی اگلی کڑی ہیں۔
حضرت اقدسؒ کی خصوصی تربیت
حضرت شاہ سعیداحمد رائے پوریؒ کی تربیت حضرت شاہ عبدالقادر رائے پوریؒ کی گود میں ہوئی۔ جو نظریہ اور فکر حضرت شیخ الہندؒ سے حضرت مولانا عبیداللہ سندھیؒ نے حاصل کیا اور ایک طویل زمانہ اس پر غوروفکر کیا اور پھر چوبیس سالہ جلاوطنی کے دوران اس فکر کی روشنی میں دنیا کے انقلابات کا مشاہدہ اور تجزیہ کیا۔ مکہ مکرمہ میں ان کی جلاوطنی کے آخری 12 سالہ قیام کے دوران ایک بار حضرت شاہ عبدالقادر رائے پوریؒ سفر حج پر تشریف لے گئے۔ ان دنوں آپؒ اپنے فکر کو اگلی نسل تک پہنچانے کے لیے فکرمند تھے۔ اس فکرمندی کا اِظہار انھوں نے حضرت شاہ عبدالقادر رائے پوریؒ کے سامنے کیا اور اپنے اوپر بیتے حالات اور اپنی تکلیفوں کا تذکرہ کرکے آبدیدہ ہوگئے اور آرزومند ہوئے کہ یہ فکر آگے کیسے چلے گا۔ تو حضرت شاہ عبدالقادر رائے پوریؒ نے فرمایا آپ فکر نہ کریں اللہ تعالی اس کا انتظام کر دے گا۔ حضرت شاہ عبدالقادر رائے پوریؒ کے بعد کے اقدامات نے ثابت کیا کہ ان کے ذہن میں وہ ”انتظام“ حضرت شاہ سعیداحمد رائے پوریؒ تھے۔ اس سفر سے واپس آتے ہی حضرت شاہ عبدالقادر رائے پوریؒ نے خاص نہج پر ہمارے حضرتؒ کی تربیت شروع کردی۔ یہ قدرت کا ہی انتظام تھا کہ جس نے پانچ سال کی عمر سے آپؒ کو حضرت شاہ عبدالقادر رائے پوریؒ کی گود میں لاکر ڈال دیا۔
حضرت شاہ عبدالقادر رائے پوریؒ نے آپؒ کو ایسا گوہر نایاب بنا دیا کہ بر صغیر کی تاریخ کے آخری دور میں حضرتؒ جیسی ممتاز شخصیت نظر نہیں آتی۔ حضرت امام سندھیؒ کی یہ آرزو اور تمنا جو ان کے دل میں پیدا ہوکر پروردگار کے حضور پیش ہوئی کہ اس پوری تاریخ کا کوئی وارث اور سمجھانے والا پیدا کردے۔ بیت اللہ شریف کی مقدس اور مبارک ساعات میں وہ دعائیں اور تمنائیں رنگ لائیں اور اس کام کے لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت شاہ سعیداحمد رائے پوریؒ کا انتخاب کیا۔ حضرت شاہ عبدالقادر رائے پوریؒ کی محنت اور تربیت کا یہ کمال اور روحانی اَثر تھا کہ ہمارے حضرت،ؒ حضرت شاہ عبدالقادر رائے پوریؒ اور حضرت امام سندھیؒ کی چلتی پھرتی تصویر بن گئے۔
حضرتؒ کے فکر کی اساس اپنے شیخ کی تربیت، حضرت سندھیؒ کے نتائج فکر اور جمعیت علمائے ہند کا سیاسی فکر اور عملی کردار ہے۔ آپؒ نے اس جماعت کی وطنی آزادی کی جدوجہد کا مشاہدہ بذاتِ خود آغازِ جوانی ہی سے کیا۔ حضرتؒ نے اس فکر کی روح کو حضرت شاہ عبدالقادر رائے پوریؒ اور اپنے نانا حضرت مولانا حبیب الرحمن رائے پوریؒ کے ذریعے سمجھا۔ اس لیے حضرت شاہ سعیداحمد رائے پوریؒ کسی ایک شخصیت یا فرد کا نام نہیں ہیں۔ آپؒ حضرت شیخ الہندؒ اور حضرت شاہ عبدالرحیم رائے پوریؒ کی مشترکہ جدوجہد، حضرت شاہ عبدالقادر رائے پوریؒ کی تربیت، جمعیت علمائے ہند کی فکر اور جدوجہد اور حضرت سندھیؒ کے تجربات و مشاہدات پر مبنی تجزیوں اور ان کے عالی دماغ کے امین ہیں۔
حضرت اقدسؒ ولی اللّٰہی جماعت کی خصوصیات کے حامل
ولی اللّٰہی جماعت کی دو بنیادی خصوصیتیں ہمیشہ نمایاں رہی ہیں۔ ایک اعلیٰ درجے کی بصیرت و حکمت اور حالاتِ حاضرہ پر گہری نظر اور دوسری بنیادی بات للہیت اور رضائے الٰہی کے حصول کی لگن۔ یہ دونوں خصوصیات آپؒ میں نمایاں تھیں۔ حقیقت یہ ہے کہ حضرت اقدس شاہ سعیداحمد رائے پوریؒ کا فکروعمل پوری ولی اللّٰہی جماعت بالخصوص جمعیت علمائے ہند کی یاد تازہ کردیتاہے۔
آپؒ کا فکروعمل ہمیں مفتی کفایت اللہ دہلویؒ کی فقاہت، حضرت مولانا حفظ الرحمن سیوہارویؒ کی حالاتِ حاضرہ اور معاشی اُمور پر بصیرت افروز گرفت اور حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ کی سیاسی جدوجہد تک رسائی دیتا ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ اور پوری ولی اللّٰہی جماعت نے جس دینی حمیت، بلند کردار اور ہمت کا ثبوت دیا، ہمارے حضرتؒ کو اللہ نے اس کا وافر حصہ عطا کیا تھا۔ یوں ولی اللّٰہی جماعت کی جدوجہد کی آپؒ اہم کڑی ہیں۔
حضرت اقدسؒ اور پاکستان میں ولی اللّٰہی فکر کی ترویج کا آغاز
تقسیم ہند کے بعد یہ تقاضا سامنے آیا کہ حضرت امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے فکر کو پاکستان میں کیسے زندہ رکھا جائے۔ تشویش ناک بات یہ تھی کہ یہاں علمائے حق کے فکر پر آزادی کے ساتھ بات کہنا مشکل ہوگیا۔ تاریخ شاہد ہے کہ تقسیم ہند کے بعد ولی اللّٰہی فکر کو زندہ رکھنے میں حضرت شاہ سعیداحمد رائے پوریؒ اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ آپؒ نے جدوجہد کا دشوارگزار راستہ چنا۔ آپؒ نے ایک ایک فرد پر محنت کرنے کے کام کا آغاز کیا۔ بڑے مجمعوں اور استقبال کی خواہش نہیں کی۔ سہولتوں کے فقدان کی وَجہ سے ذمہ داری کی ادائیگی سے فرار کی راہ نہیں ڈھونڈی۔ کالجز، یونیورسٹیوں، مدارس اور طلبا کے ہاسٹلز کے اندر پہنچ کر نوجوان نسل کی تربیت کرتے رہے۔ اور اس کٹھن دعوتی سفر کا آغاز تنِ تنہا اپنی ذات اور چند افراد پر محنت سے کیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج پاکستان کے اندر ہزاروں کی تعداد میں نوجوانوں کی ایسی اجتماعیت قائم ہوگئی ہے جو جید علمائے کرام، صاحبِ بصیرت مفتیان کرام اور باشعور گریجوایٹس پر مشتمل ہے۔ آپؒ نے ایک ایسی اجتماعیت پیدا کردی جو حضرت سندھیؒ اور اپنے اکابر سے سچی محبت رکھنے والی ہے اور حضرت سندھیؒ کے مشن پر اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لیے تیار ہے۔ وہ وعدہ جو حضرت شاہ عبدالقادر رائے پوریؒ نے سفر حج میں حضرت سندھیؒ سے کیا، اس خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے یہ نوجوان کمربستہ ہےں۔ اور وہ ثابت قدمی اور استقامت جو حضرت شاہ سعیداحمد رائے پوریؒ نے تقسیم ہند کے بعد دکھائی، اس فکر اور جذبے کو اس نوجوان اجتماعیت نے اپنے اندر پوری طرح جذب کر لیا۔ اور یہ منظر کچھ ایسا ہی بنا جو قرآنِ حکیم نے نبی اکرمﷺ اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم کے بارے میں فرمایا:
(کیا ہم نے نہیں کھول دیا تیرا سینہ اور اُتار رکھا ہم نے تجھ پرسے بوجھ تیرا، جس نے جُھکا دی تھی پیٹھ تیری۔) (1-3:94)
یعنی غلبہ دین کی مشکل ترین جو ذمہ داری رسول اللہﷺ کی تھی اسے نبی مکرمﷺ کے ساتھ صحابہ کرامؓ نے بھی پوری ہمت سے اختیار کرلیا۔
حضرت اقدسؒ کی زندگی سیرتِ نبوی کا نمونہ
تاریخِ ہند کے آخری دورمیں حضرت شاہ سعیداحمد رائے پوریؒ اوران کے متوسلین کا معاملہ کچھ اسی طرح کا ہے کہ وہ نگاہِ بصیرت اور بے مثال جدوجہد جو حضرت شاہ سعیداحمد رائے پوریؒ میں ان کے شیخ کی تربیت سے پیدا ہوئی۔ اس کا نور ہزاروں نوجوانوں کے دل و دماغ میں منتقل ہوگیا۔ وہ ذمہ داری جو حضرت شاہ عبدالقادر رائے پوریؒ نے حضرتؒ کے کندھے پر ڈالی تھی اسے ان نوجوانوں نے اٹھا لیا۔ اور وہ بوجھ جو حضرتؒ اکیلے اُٹھائے پھر رہے تھے۔ آج حضرت سے وابستہ ایک ایک نوجوان پورے پاکستان کے اندر اس غم اور فکر کو اپنے دل کے اندر لیے ہوئے ہے۔ انّ اللّٰہ علٰی کلّ شیئٍ قدیر۔
مخالفین نے پوری کوشش کی کہ حضرتؒ کی آواز کو دبا دیا جائے۔ اس فکر کی پیش رفت کو روک دیا جائے۔ ایک وقت ایسا آیا کہ حالات نے کچھ دیر کے لیے حضرتؒ کوبہ ظاہر تنہا کردیا، سوائے چند رفقا کے کوئی قریب لگنے کو تیار نہ تھا۔ مگر حالات کی ناموافقت کے باوجود حضرتؒ نے یہ ثابت کیا
ہری ہے شاخِ تمنا، ابھی جلی تو نہیں
دبی ہے آگ جگر کی، مگر بجھی تو نہیں
حضرتؒ نے اپنے جگر کی آگ کو بچا کر رکھا اور اس کی تمازت سے دوسروں کوزندہ کیے رہے۔ اور جو مشکلات آئیں ان کو خندہ پیشانی سے قبول کیا،مگر کسی کے سامنے نہ جھکے اور نہ ہاتھ پھیلایا۔ پوری جرات اور وقار کے ساتھ مشکل حالات کا مقابلہ کرتے رہے۔ ہم میں سے بہت سے لوگ اس بات کے گواہ ہیںکہ حضرتؒ ذرا سا جھکتے اور ذرا سی نرمی دکھاتے، تو دولت اور سرمائے کا ڈھیر لگ جانا تھا۔ استقبال ہونے تھے۔ سیر و سیاحتیں ہونی تھیں، بڑا نام ہونا تھا۔ وہ لوگ جنھوں نے حضرتؒ کے شاگردوں کی شاگردی اختیار کی اور چند باتیں کرنا سیکھ لیں،مگر اخلاص اور للہیت سے دور رہے۔ وہ آج پاکستانی سیاست میں اپنی بھرپور قیمت وصول کررہے ہیں۔
یہاں ایک بڑا اہم سبق اور غور طلب بات ہے کہ آپ کے شاگردوں کے شاگرد جو پاکستان کے سیاسی نظام میں اپنا ایک نام رکھتے ہیں اور وہ مروّجہ سیاست میں بعض قوتوں کی ناک کا بال بن کر خوب مال بنا رہے ہیں، تو غور کیجیے، وہ ایسے باکمال لوگ اور گوہر نایاب جو حضرتؒ نے تیار کیے ہیں اگر حضرتؒ ان کو لے کر سیاسی میدان میں اُترتے تو کیا پاکستان میں ان کے مقابلے اور ٹکر کی کوئی جماعت ہوسکتی تھی؟ ہرگز نہیں! مگر پھر شاہ صاحبؒ کا فکر و فلسفہ، تاریخی تسلسل، اعلیٰ ہمت، بلند کردار، بے داغ ماضی رکھنے والی ایسی کوئی جماعت سامنے نہیں آسکتی تھی۔
مروّجہ سیاست سے اجتناب کی وجوہات
ایسی کون سی خوبی ہے جو کسی لیڈر، کسی جماعت اور کسی رہنما کے اندر ہونی چاہیے؟ جو حضرتؒ اور ان کی اجتماعیت میں موجود نہ تھی۔ دوستو! اس موقع پر جو بات ہمیں سمجھنی ہے وہ یہ ہے کہ ہم سیاست بازی کے لیے نہیں ہیں۔ ہم یہاں اپنا تعارف پیدا کرنے کے لیے جمع نہیں ہوئے۔ ہمیں حضرتؒ نے یہ نہیں سکھایا کہ اپنی قیمت لگواﺅ، استقبال کرواﺅ، نام پیدا کرو۔ حضرتؒ نے ایک بات سکھائی ہے کہ وہ فکر و فلسفہ اور مشن جو حضرت امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے دیا اور اس کے مطابق ولی اللّٰہی جماعت نے جو کردار ادا کیا‘ جب تک اس کی عملی ترویج اور نظام قائم کرنے کی کوئی صورت سامنے نہیں آتی، ہم نے قدم آگے نہیں بڑھانا۔ تیاری کرو اور بہ قول حضرت سندھیؒ کے ٹائم مارک کرو، تربیت لو اور دوسروں کو تربیت دو۔ اور اس وقت کا انتظار کرو کہ مکمل تبدیلی کے لیے ملک کے حالات سازگار ہوجائیں اور پروردگار فیصلہ فرما دیں کہ اس خطے کو اب ولی اللّٰہی افکار کی روشنی میں انقلاب سے ہم آغوش ہونا ہے۔
ہم کوئی سیاسی اور اقتداری پارٹی نہیں ہےں۔ حضرتؒ اس فکر، مشن اور اس غم کو ہمارے سپرد کرکے اور اپنے سینے کو کھول کر لحد نشین ہو گئے۔ حضرتؒ کا یہ کردار و عمل ہمیں سمجھاتا ہے کہ ہمیں بھی اسی راہ پر چلنا ہے، چاہے ہماری موت ہی کیوں نہ آجائے۔ حضرتؒ سے زیادہ انقلاب کو عملی شکل میں دیکھنے والا ہم میں سے کوئی نہیں تھا۔ ملک اور خطے کے اندر انقلاب برپا کرنے کا ایک جوش، جذبہ، ولولہ اور شدید تمنا حضرتؒ کے دل میں موجزن تھی، لیکن تیاری مکمل نہیں ہوئی، حالات سازگار نہیں ہوئے تو آپؒ نے جلدی نہیں کی۔ یہ کام اسی وقت ہونا ہے، جب فکری طور پر تیاری مکمل ہو۔اعلیٰ درجے کا ڈسپلن ہو اور معروضی حالات سازگار ہوجائیں۔
حضرت اقدسؒ اور آپ کی تربیت یافتہ جماعت
الحمدللہ! حضرتؒ نے ان لوگوں میں فکر منتقل کیا ہے اور ایسے لوگ اس جماعت کے حوالے کیے ہیں کہ بفضل خدا اب جماعت کی گم راہی اور بھٹکنے کا اِمکان نہیں ہے۔ حضرتؒ وقتاً فوقتاً جو تبصرے اور تجزیے کرتے تھے۔ اور اس خطے کی بدلتی صورتِ حال کے حوالے سے مختلف مواقع پر حضرتؒ نے تجزیے کے جو اصول مرکزی جماعت کو سمجھائے اور اس کی روشنی میں جو ایک لیڈر شپ تیار ہوئی تو اس ماحول کی برکت سے ملک کو ایسی قیادت میسر آگئی ہے کہ اس خطے میں اگر جامع تبدیلی آنی ہے تو وہ اُس اجتماعیت کے ذریعے سے آنی ہے، جسے ہمارے حضرت شاہ سعیداحمد رائے پوریؒ نے تیار کیا۔
ہمارے حضرتؒ نے معروضی حالات کو سامنے رکھ کر نظریاتی رہنمائی کے عمل کو آگے بڑھایا ہے تو جہاں ہمیں حضرتؒ کی بصیرت پر اعتماد ہے (کہ حالات آج اس پر مہرتصدیق بھی ثبت کررہے ہیں) اسی طرح حضرتؒ نے اس خطے کے مستقبل کے حوالے سے تنظیم کا جو نظام اور طریقہ بتایا ہے، ہمیں پورا یقین رکھنا چاہیے کہ اسی نہج اور اسی طریقے پر اس خطے کے اندر جامع اور مکمل تبدیلی آکر رہے گی۔ دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالی ہمیں استقامت نصیب فرمائے اور اس اجتماعیت کے اندر ہماری جو ذمہ داری بنتی ہے، اسے ادا کرنے کی اللہ تعالی ہمیں ہمت اور توفیق عطا فرمائے۔ آمین
بحوالہ : عزم سیریز نمبر 297
ٹیگز
مولانا ڈاکٹر محمد ناصرعبدالعزیز
پروفیسر ڈاکٹر مولانا محمد ناصرعبدالعزیز ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ (ٹرسٹ) لاہور کے ممبر ایڈوائزری بورڈ اور حضرت شاہ سعید احمد رائے پوری ؒ کے مجازین میں سے ہیں۔ درسِ نظامی کی مکمل تعلیم جامعہ خیر المدارس ملتان سے حاصل کر کے 1989ء میں سندِ فراغت حاصل کی۔ 1994ء میں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی (اسلام آباد) سے ایل ایل بی آنرزشریعہ اینڈ لاءکیا۔ ازاں بعد پنجاب ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ سے بطور استاد وابستہ ہوگئے۔ اس دوران علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد سے ایم فل اور بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے پی۔ایچ۔ڈی کی سند حاصل کی۔ آج کل گورنمنٹ گریجویٹ کالج جھنگ کے شعبہ اسلامیات میں ایسوسی ایٹ پروفیسرہیں اور مولانا شاہ عبد العزیز رائے پوریؒ کے قائم کردہ مدرسہ جامعہ انوار العلوم عثمانیہ ریل بازار جھنگ صدر کے اہتمام و انصرام کے فرائض بھی سرانجام دے رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ رحیمیہ نظام المدارس کے ناظم امتحانات بھی ہیں۔ "ماہنامہ رحیمیہ" میں درسِ حدیث کے عنوان سے سلسلہ وار لکھ رہے ہیں۔
متعلقہ مضامین
ہمارے مربی ومحسن (حضرت اقدس مولانا شاہ سعیداحمد رائے پوریؒ )
ہمارے مربی ومحسن حضرت اقدس مولانا شاہ سعیداحمد رائے پوریؒ از: مولانا مفتی عبدالقدیر، چشتیاں حضرتِ اقدس ؒ سے ابتدائی تعارف: …
حضرت رائے پوری رابعؒ (یادوں کے دریچے)
حضرت رائے پوری رابعؒ (یادوں کے دریچے) ڈاکٹر عبدالرحمن رائو (مضمون نگار حضرتِ اقدس مولانا شاہ سعیداحمد رائے پوریؒ کے چھوٹے بھائی راؤ رشیداحمد مرحوم کے صاحبزادے ہیں۔ جنھ…
امام حکمت وعزیمت حضرت اقدس شاہ سعید احمد رائے پوری ؒ
امام حکمت وعزیمت حضرت اقدس شاہ سعید احمد رائے پوری ؒ از: مولانا محمد مختار حسن حضرت اقدس مولانا شاہ سعیداحمد رائے پوریؒ نے اپنی پوری زندگی نوجوانوں میں اپنے بزرگ…
حضرت اقدس مولانا شاہ سعیداحمد رائے پوریؒ (عہدِ حاضر کی عبقری اور تجدیدی شخصیت)
حضرت اقدس مولانا شاہ سعیداحمد رائے پوریؒ (عہدِ حاضر کی عبقری اور تجدیدی شخصیت) محمدعباس شاد (مورخہ 22 مارچ 2015ءبروز اتوار کو ادارہ رحیمیہ علومِ قرآنیہ لاہور میں حضر…