حضرت مولانا شاہ اللہ بخش بہاولنگریؒ کا شمار تحریکِ ریشمی رومال کے سرپرستِ اعلیٰ اور بانی سلسلۂ عالیہ رحیمیہ رائے پور کے اجل خلفا میں ہوتا ہے۔ آپؒ کے آبائو اجداد کا تعلق ریاست جیسلمیر سے تھا۔ ریاست کے راجہ سے خاص تعلق تھا، لیکن بعض حالات کے زیرِ اثر ان کا پورا خاندان ملتان منتقل ہوگیا۔ بعد ازاں قصبہ منچریاں (دیپال پور) اور پھر ککوبودلہ (ضلع بہاولنگر) آباد ہوئے۔
حضرت بہاولنگریؒ کی پیدائش 1865ء میںہوئی۔ والدِ گرامی کا نام میاں بختاور تھا۔ آپؒ کے والدِ گرامی کا پیشہ کاشت کاری تھا۔ ان کی اپنی ملن سار اور خدا ترس طبیعت کی وجہ سے علاقے میں بڑی قدر و منزلت تھی۔ مولانا موصوفؒ نے ابتدائی تعلیم بہاولنگر ہی میں ایک قصبے ’’سمجھو‘‘ میں حاصل کی۔ مزید تعلیم کے حصول کے لیے دہلی روانہ ہوئے۔ دہلی میںمدرسہ حسین بخش (مٹیا محل، جامع مسجد دہلی) میں داخلہ لیا اور خوب دل لگا کر تعلیم حاصل کی۔ تعلیم سے فراغت کے بعددہلی ہی میں قیام فرمایا اور دہلی شاہی مسجد کے قریب ہی ایک مسجد مہر کن میںامام اور خطیب مقرر ہوئے۔ اسی دوران قرآن و حدیث اور دیگر کتب کی تدریس کا سلسلہ جاری رکھا۔ آپؒ کی ذہانت اس کمال کی تھی کہ متعدد طلبا آپؒ سے علم حاصل کرنے کے خواہش مند رہتے تھے۔ مسجد میں کوئی باقاعدہ مدرسہ تو نہ تھا، لیکن آنے والے طلبا میں سے دس کا انتخاب کرکے قیام کی اجازت دیتے اور انھیں پڑھاتے۔
دہلی میں قیام کے دوران ہی آپؒ کوکسی شیخِ کامل کے ہاتھ پر بیعت ہونے کا جذبہ بیدار ہوا۔ یہ شوق اس قدر بڑھا کہ اس کے لیے تلاش کا آغاز فرمایا، لیکن باوجود کوششوں کے دہلی میں کسی سے بھی مناسبت پیدا نہیں ہوئی۔ آپؒ اُن دنوں اسی مسجد ہی میں امامت کے فرائض ادا فرما رہے تھے کہ جب حضرت اقدس عالی شاہ عبدالرحیم رائے پوریؒ اپنے مرض کے علاج کے لیے دہلی تشریف لائے اور نماز باجماعت کی پابندی کے لیے اس مسجد میں قیام فرما ہوئے۔ حضرتؒ کے اَخلاق دیکھ کر آپؒ بڑے متأثر ہوئے اور پھر حضرتؒ سے بیعت کا اشتیاق دل میں پیدا ہوا۔ چناں چہ رائے پور حاضر ہو کر قصبہ لودھی پور کے سفر کے دوران حضرت اقدس رائے پوریؒ سے بیعت کا شرف حاصل کیا اور ذکر و اذکار کی پابندی کرکے سلوک کی منازل طے کیں اور حضرتؒ کی خلافت سے مشرف ہوئے۔
ایک بار بہاولنگر کے معززین حضرت عالی شاہ عبدالرحیم رائے پوریؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے درخواست کی کہ یہاں بہاولنگر میں دینی اُمور کے حوالے سے ہماری رہنمائی کرنے والا کوئی نہیں۔ آپ مولانا اللہ بخش کو یہاں بھیج دیں۔ حضرت عالیؒ نے ان کی درخواست قبول فرمائی اور مولانا بہاولنگریؒ سے فرمایا: ’’مولانا! آپ کے اعزہ و اقارب اور اہلِ وطن کا بھی آپ پر حق ہے۔ ۔۔۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ آپ وطن تشریف لے جاکر اصلاح و تربیت کا کام سر انجام دیں۔اور مخلوقِ خدا کوخالق سے تعلق پیدا کرنے کے لیے رہنمائی فرماتے رہیں‘‘۔ اس طرح مولانا موصوفؒ دہلی چھوڑ کر چک نادر شاہ (بہاولنگر) منتقل ہوگئے اور درس و تدریس کا آغاز فرمایا۔ ایک سفر کے دوران حضرت عالی رائے پوریؒ کا گزر بہاولنگر سے ہوا تو ایک جنگل کی طرف اشارہ فرمایا کہ یہاں ایک مرکز کا قیام زیادہ مبارک ہوگا۔ چناں چہ حضرت بہاولنگریؒ نے بہاولنگر کے قریب ایک بستی ’’دین پور‘‘ نام سے آباد کی اور ایک مسجد و مدرسہ بھی قائم فرمایا۔
ولی اللّٰہی اکابرین جہاں وطنِ عزیز کی حریت و آزادی کے لیے میدانِ عمل میں رہے، وہیں نئی نسل کو قرآنِ حکیم کی تعلیمات کو اجتماعی نقطۂ نظر سے سمجھنے اور سمجھانے کا بھی اہتمام تسلسل کے ساتھ کیا گیا۔ سلسلۂ عالیہ رحیمیہ رائے پور انھی تاریخی روایات اور فکرو عمل کا ترجمان ہے۔ حضرت عالی رائے پوریؒ نے قرآنی اُصول اور اس کے مطابق عصری تقاضوں کا فہم و شعور عام کرنے کے لیے مکاتبِ قرآنیہ کا اجرا فرمایا تھا۔ اگر ہم صرف ریاست بہاول پور کی بات کریں تومنچن آباد، بہاولنگر، ہارون آباد، چشتیاں، خیرپور، لیاقت پور اور صادق آباد وغیرہ میں اس سلسلۂ مکاتیب کی شاخیںقائم ہوئیں۔ ان مکاتیب کے قیام میں مولانارحیم بخشؒ، جج صاحب چوہدری عالم علیؒ اور مولانا اللہ بخش بہاولنگریؒ کے علاوہ خلیفہ غلام محمد دین پوریؒ اور مولانا غلام قادرؒ نے بھی بھرپور کردار ادا کیا۔ حضرتِ عالی رائے پوریؒ نے اس علاقے کے ان مکاتیب کی نگرانی و رہنمائی کی ذمہ داری حضرت مولانا بہاولنگریؒ اور چوہدری عالم علیؒ کے سپرد کی تھی۔
دین پور (بہاولنگر) میں 1907ء میں مدرسہ اسلامیہ رحیمیہ انوارِ ہدایت قائم کیا گیا تو اســکا اہتمام مولانا موصوفؒ ہی کے ذمہ تھا۔ اس مثالی ادارے نے ایسی ترقی کی کہ اسے اس علاقے کا اُم المدارس کہا جاسکتا ہے۔ مولانا موصوفؒ علومِ دینیہ کی درس وتدریس کے ماہر خیال کیے جاتے تھے۔ مزید یہ کہ حضرت عالی رائے پوریؒ کی مستقل نگرانی و رہنمائی میںاسے چار چاند لگ گئے۔ حضرتِ عالی رائے پوریؒ کے پاس اگر کوئی استعداد اور زیادہ صلاحیت والا طالب علم آتا تو اسے آپ مولانا موصوفؒ کے پاس دین پور میںبھیج دیا کرتے تھے۔ حضرت عالی رائے پوریؒ نے خود اپنے صاحب زادے حافظ عبدالرشید کو بھی حفظ کرنے کے بعد دینی علوم کی تحصیل کے لیے دین پور ہی بھیجا تھا۔
الغرض! آپؒ سلسلۂ عالیہ رائے پور کے قرآنی مکاتیب و مدارس کے قیام، انتظام اور نگرانی میں حضرتِ عالیؒ کے ساتھ رہے۔ ان تمام مکاتیب کو ایک منظم عمل سے مربوط کیا گیا تھا۔ اس مقصد کے لیے جو انتظامی بورڈ بنایا گیا، مولانا موصوفؒ اس کے بھی ایک اہم ترین رکن تھے۔ طلبا اور اساتذہ کے لیے ضابطہ اَخلاق پر عمل درآمدسے لے کر نئے علاقوں میں اس طرح کے مکاتیب کی ترغیب کے لیے اسفارتک آپؒ کی زندگی انتھک جدوجہد سے عبارت ہے۔ ریاست بہاولپور کی تاریخ قرآن فہمی کی تحریک میں حضرت عالی رائے پوریؒ اور مولانا موصوفؒ کی کاوشوں کو ہمیشہ یاد رکھے گی۔
آپؒ کا وصال۱۰؍ رجب المرجب۱۳۵۲ھ / 30؍ اکتوبر 1933ء کوہوا۔ نمازِ جنازہ حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوریؒ نے پڑھائی۔آپؒ کا مزار دین پور، ضلع بہاولنگر میں مرجع خلائق ہے۔
ٹیگز
وسیم اعجاز
جناب وسیم اعجاز مرے کالج سیالکوٹ میں زیر تعلیم رہے اور پنجاب یونیورسٹی لاہور کے گریجویٹ ہیں۔ آج کل قومی فضائی ادارے PIA کے شعبہ انجینئرنگ میں پیشہ ورانہ خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ 1992ء میں حضرت شاہ سعید احمد رائے پوری ؒ کے دامنِ تربیت سے وابستہ ہوئے۔ حضرت مفتی شاہ عبد الخالق آزاد رائے پوری مدظلہ کی زیر سرپرستی تعلیمی ، تربیتی اور ابلاغی سرگرمیوں میں ذمہ داری نبھا رہے ہیں۔ برعظیم پاک و ہند کی سماجی و سیاسی تاریخ، حریت پسند شخصیات کے احوال و وقائع ان کی دلچسپی کے خاص میدان ہیں۔ اردو ادب سے بھی شغف رکھتے ہیں ۔ مجلہ "رحیمیہ" لاہور میں گزشتہ کئی سالوں سے "عظمت کے مینار" کے نام سے سلسلہ وار لکھ رہے ہیں۔