حضرت ابوحذیفہ ہَیثم یا ہاشم بن عتبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ اصحابِ بدر، السابقون الاولون ، مہاجرینِ حبشہ اور مہاجرینِ مدینہ میں سے ہیں۔ آپؓ سردارِ قریش عتبہ کے بیٹے ہیں، جوکہ حضور اقدس ﷺ کا بدترین دشمن تھا۔ آپؓ کی والدہ فاطمہ بنت صفوان بن اُمیہ تھیں۔ آپؓ ’’ابوحذیفہ‘‘ کی کنیت سے مشہور ہیں۔ آپؓ طویل القامت، خوش چہرہ، آنکھ میں نقص اور بڑی عمر کے لوگوں میں سے تھے۔ بعثتِ نبویؐ کے وقت آپؓ کی عمر 30 یا 32 سال تھی۔ آپؓ حضوؐر کے قیامِ دارِ ارقم سے پہلے اپنی اہلیہ سہلہ بنت سہیلؓ سمیت حلقہ بگوشِ اسلام ہوئے۔ اس پر عتبہ نے آپؓ اور آپؓ کی اہلیہ سے قطع تعلق کر لیا۔
حضرت ابوحذیفہؓ فضلا صحابہ کرامؓ میں شامل ہیں۔ آپؓ۵نبوی میں ہجرتِ حبشہ کے پہلے قافلے میں شریک ہوئے۔ مسلمانوں اور سردارنِ مکہ کی صلح کی افواہ پر مکہ واپس آئے۔ پھر۶نبوی میں دوبارہ حبشہ کی طرف ہجرت کی۔ وہیں آپؓ کے ایک صاحبزادے محمد بن ابی حذیفہ پیدا ہوئے۔ ہجرتِ مدینہ سے کچھ عرصہ قبل مکہ واپس تشریف لے آئے۔ پھر آپؐ کے حکم پر مدینہ منورہ ہجرت کی اور حضرت عباد بن بِشرؓ کے مہمان بنے اور ان سے آپؓ کا سلسلۂ مواخات جوڑا گیا۔
حضرت ابوحذیفہؓ نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تمام غزوات میں شرکت کی۔ غزوۂ بدر میں آپؓ اپنے خونی رشتے داروں کے مقابلے میں اُترے۔ اس دوران آپؓ کا اپنے والد عتبہ، بھائی ولید بن عتبہ اور بہن ہندہ بنت عتبہ کے علاوہ کئی دیگر رشتہ داروں سے بھی مقابلہ ہوا۔ عتبہ، حضرت حمزہؓ کے ہاتھوں مارا گیا، جس کا بدلہ اُحدکی جنگ میں اس کی بیٹی ہندہ نے حضرت حمزہؓ کو شہید کرکے لیا، جوکہ وہ بھی بعد میں فتح مکہ کے موقع پر مسلمان ہوگئیں۔ جنگِ بدر کے اختتام پر جب سردارانِ قریش عتبہ، شیبہ اور ابوجہل وغیرہ کی لاشیں کنوئیں میں پھینکی گئیں تو آپؐ نے خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’اے سردارانِ قریش! تم سے اللہ تعالیٰ نے جو وعدہ کیا، وہ پورا ہوگیا کہ نہیں؟! ہمارے ساتھ جو فتح وغلبہ کا وعدہ کیا تھا، وہ تو پورا ہوگیا‘‘۔ آپؐ نے جب یہ الفاظ فرمائے اور حضرت ابوحذیفہؓ کے چہرے کی طرف دیکھا کہ آپؓ کے چہرے کا رنگ ذہنی پریشانی سے پھیکا پڑ ا گیا ہے، تو آپؐ نے فرمایا: ’’ابوحذیفہ! تم اپنے والد کی اس حالت سے افسردہ ہوگئے ہو؟‘‘ آپؓ نے عرض کیا: یارسول اللہ! میرے اندر اپنے والد اور اس کے قتل کے بارے میں کوئی پریشانی یا افسردگی پیدا نہیں ہوئی، بلکہ میں اسے صائب الرائے، بردبار اور سلجھا ہوا آدمی سمجھتا تھا اور مجھے ان صلاحیتوں کی بنیاد پر قوی امید تھی کہ اس کے یہ اوصاف اسے اسلام کے قریب تر لے آئیں گے۔ جب میں نے اس کے انجام کو دیکھا کہ کفر پر موت ہوئی ہے اور میری آرزو اور خواہش پوری نہ ہوسکی تو مجھے اس کا رنج ہے‘‘۔ جب حضوؐر نے یہ بات سنی تو آپؓ کے حق میں دعائے خیر فرمائی۔
آپ۱۱ہجری میں جنگِ یمامہ میں 54 برس کی عمر میں شہید ہوئے۔ آپؓ نے اپنے ورثا میں تین بیویاں اور دو بیٹے محمد اور عاصم چھوڑے۔ (حوالہ: اسد الغابہ، الاستیعاب )
ٹیگز
مولانا قاضی محمد یوسف
مولانا قاضی محمد یوسف کا شمار حضرت اقدس شاہ سعید احمد رائے پوری ؒ کے خلفاء مجازین میں ہوتا ہے۔ مدرسہ اشرفیہ تعلیم القرآن (حسن ابدال) اور گوجرانوالا اور جامعہ مدنیہ لاہور میں زیر تعلیم رہے۔ 1988ء میں فاضل عربی/ فاضل اردو کی سند حاصل کرنے کے بعد پنجاب یونیورسٹی لاہور سے ایم۔اے اسلامیات اور طبیہ کالج راولپنڈی و نیشنل طبّی کونسل پاکستان سے طب کی باقاعدہ تعلیم بھی حاصل کی۔ 1980 کی دہائی میں دوران تعلیم حضرت مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ کی فکری جدوجہد سے منسلک ہوئے۔ 1991 میں جامعة الملك السعود الرياض سعودی عرب سے تدریب المعلمین کی سند حاصل کی. اس وقت آپ گورنمنٹ ڈگری کالج واہ کینٹ میں بطور استاد فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔’’جامعہ خادم علوم نبوۃ‘‘ حسن ابدال کے مہتمم اور جامعہ عائشہ صدیقہ حسن ابدال میں مدرس ہیں۔ مسجد خلفائے راشدین میں امامت و خطابت کے فرائض سرانجام دینے کے ساتھ ساتھ اپنا خاندانی مطب بھی چلا رہے ہیں۔ تعلیمی اور فلاحی ادارے "التقویٰ ٹرسٹ" کے سرپرست، کامیاب استاد و منتظم اور طبیب و خطیب ہیں۔ حضرت مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری مدظلہ کی سرپرستی میں خانقاہ رحیمیہ اور ادارہ رحیمیہ کے فکروعمل کی ترویج میں کوشاں ہیں۔ ماہنامہ مجلہ "رحیمیہ" میں "صحابہ کا ایمان افروز کردار" کے عنوان سے سلسلہ وار لکھ رہے ہیں۔
متعلقہ مضامین
اُمُّ المومنین حضرت اُمِ سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا
اُمُّ المومنین حضرت اُمِ سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے والد قریش کے چند مشہورِ زمانہ سخی افراد میں سے تھے۔ آپ کی والدہ عاتکہ بنت عامر کنانیہ تھیں، جن کا تعلق معزز قبیلہ بنوفراس …
خلافتِ راشدہ کے نظام میں وسیع تر بامعنی مشاورت اور آج کی جمہوریت
وطنِ عزیز کی سیاست اپنے روز ِقیام ہی سے مختلف نعروں سے عبارت رہی ہے، جیساکہ ہم نے گزشتہ ماہ کے شذرات میں یہاں اسلامی نظام کے نمائشی نعروں کے برعکس چند سنجیدہ گزارشات …
ابو عمارہ، سیّدِ شہدا ء حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہٗ
ابو عمارہ، سیّدِ شہداء حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہٗ مہاجرینِ اوّلین میں سے ہیں۔ آپؓ رسول اللہ ﷺ کے چچا، رضاعی بھائی اور آپؐ سے صرف دو سال بڑے تھے، گویا آپؐ کے ہم عمر تھے۔ حضرت ح…
حضرت ثابت بن قیس بن شماس اَنصاریؓ ’خطیبُ النبیؐ‘
حضرت ثابت بن قیس بن شماس خزرجیؓ اَنصار کے اور رسول اللہ ﷺ کے ’’خطیب‘‘ کے لقب سے ملقب تھے۔ فصاحت و بلاغت اور خطابت میں آپؓ کو بڑی مہارت حاصل تھی، اس …