حضرت عبدالرحمن بن ابو بکر رضی اللہ عنہٗ (27 ق ھ / 53ھ) کا نام عبد الکعبہ تھا۔ اسلام قبول کرنے کے بعدنبی کریمﷺ نے آپؓ کا نام ’’عبد الرحمن‘‘ رکھ دیا۔ آپؓ کے والد حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہٗ اور خاندان کے لوگوں نے ابتدا ہی میں اسلام قبول کر لیا تھا، لیکن آپؓ سابقہ مذہب پر قائم رہے اور آپؓ نے فتح مکہ سے پہلے صلح حدیبیہ کے نزدیک اپنی رائے اور حقانیت کی بنیاد پر پورے شعور و اِدرک سے اسلام قبول کیا۔ اس کے بعد ہجرت بھی کی اور ہجرت کے بعد آپؓ اپنے والدؓ اور خاندان کے ساتھ مدینہ منورہ میں رہے۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ اور آپؓ دونوں سگے بہن بھائی تھے۔ آپؓ اپنے والدؓ کے سماجی و معاشی اور تجارتی کاموں میں مکمل معاون تھے۔
حضرت عبد الرحمن بن ابوبکرؓفطرتاً نہایت شجاع و بہادر تھے، خصوصاً تیر اندازی میں کمال درجے کی مہارت تھی اور ان خصوصیات میں تمام قریش میں ممتاز تھے۔ بعض مؤرّخین نے لکھا ہے کہ وہ عرب کے ان چنیدہ بہادروں میں سے ہیں، جنھیں ایک ہزار بہادروں کے برابر تسلیم کیا گیا۔ قبولِ اسلام کے بعد ان کے یہ جوہر دینِ حق کی حمایت و نصرت میں صَرف ہونے لگے۔ چناں چہ صلح حدیبیہ کے بعد دورِ نبوت میں جو غزوات پیش آئے، ان میں جاں بازی و پامردی کے ساتھ کامل سرگرمی سے شریکِ کار رہے۔ فتح مکہ، حنین، غزوۂ طائف اور تبوک میں بہ طور خاص شریک رہے۔ اس دوران جتنی دیگر سماجی و علمی سرگرمیاں ہوتیں، ان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے۔ نبی کریمؐ کی وفات کے بعد دورِ صدیقیؓ اور دورِ فاروقیؓ میں بھی جنگوں میں شریک ہوئے۔ جنگِ یمامہ میں تو آپؓ نے کمال ہی کر دکھایا۔ دشمن کے سات بڑے بڑے جنگی افسروں کو تنہا اپنے تیر کا نشانہ بنا کر ختم کر دیا۔ اسی طرح قلعہ یمامہ کی دیوار میں شگاف تھا، مسلمان اس کے ذریعے اندر داخل ہونا چاہتے تھے، لیکن محکم بن طفیل نام کا سردار اس کی حفاظت کر رہا تھا۔ حضرت عبدالرحمنؓ نے تاک لگا کر اس کے سینے پر ایسا تیر مارا کہ تڑپ کر خاک کا ڈھیر بن گیا اور مسلمان قلعہ میں داخل ہو گئے۔ اس طرح ان کی اس جاں بازانہ مہارت سے مسلمان جماعت نے اس موقع پر فتح حاصل کرلی۔
حضرت عبدالرحمن ظریف الطبع اور خوش مزاج تھے۔ آپؓ صحاح ستہ میں حدیث کے راویوں میں سے ہیں۔ متعدد حضرات نے آپؓ سے احادیث روایت کی ہیں۔ آپؓ حضرت علیؓ کی خلافت کے بعد حضرت امیر معاویہؓ کے دور میں مدینہ چھوڑ کر مکہ چلے آئے اور مکہ سے دس میل کے فاصلے پر ’’حبشی‘‘ نام کے ایک پہاڑی مقام پر قیام پذیر ہوئے۔ وہیں ایک رات حالتِ نیند میں ۵۳ ہجری میں وفات پائی اور مکہ میں آپؓ کی تدفین ہوئی۔ آپؓ کے ایک بیٹے محمد کی کنیت ابو عتیق تھی۔ وہ بھی شرفِ صحابیت سے بہرامند تھے۔ ان کی نسل کثرت سے چلی۔ آپؓ کے دوسرے بیٹے عبداللہ کے بیٹے طلحہ تھے، جنھیں بڑا عروج نصیب ہوا اور سیّدنا صدیق اکبرؓ کی نسل سب سے زیادہ انھی سے چلی جو طلحیون کہلاتی تھی۔
ٹیگز
مولانا قاضی محمد یوسف
مولانا قاضی محمد یوسف کا شمار حضرت اقدس شاہ سعید احمد رائے پوری ؒ کے خلفاء مجازین میں ہوتا ہے۔ مدرسہ اشرفیہ تعلیم القرآن (حسن ابدال) اور گوجرانوالا اور جامعہ مدنیہ لاہور میں زیر تعلیم رہے۔ 1988ء میں فاضل عربی/ فاضل اردو کی سند حاصل کرنے کے بعد پنجاب یونیورسٹی لاہور سے ایم۔اے اسلامیات اور طبیہ کالج راولپنڈی و نیشنل طبّی کونسل پاکستان سے طب کی باقاعدہ تعلیم بھی حاصل کی۔ 1980 کی دہائی میں دوران تعلیم حضرت مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ کی فکری جدوجہد سے منسلک ہوئے۔ 1991 میں جامعة الملك السعود الرياض سعودی عرب سے تدریب المعلمین کی سند حاصل کی. اس وقت آپ گورنمنٹ ڈگری کالج واہ کینٹ میں بطور استاد فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔’’جامعہ خادم علوم نبوۃ‘‘ حسن ابدال کے مہتمم اور جامعہ عائشہ صدیقہ حسن ابدال میں مدرس ہیں۔ مسجد خلفائے راشدین میں امامت و خطابت کے فرائض سرانجام دینے کے ساتھ ساتھ اپنا خاندانی مطب بھی چلا رہے ہیں۔ تعلیمی اور فلاحی ادارے "التقویٰ ٹرسٹ" کے سرپرست، کامیاب استاد و منتظم اور طبیب و خطیب ہیں۔ حضرت مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری مدظلہ کی سرپرستی میں خانقاہ رحیمیہ اور ادارہ رحیمیہ کے فکروعمل کی ترویج میں کوشاں ہیں۔ ماہنامہ مجلہ "رحیمیہ" میں "صحابہ کا ایمان افروز کردار" کے عنوان سے سلسلہ وار لکھ رہے ہیں۔
متعلقہ مضامین
اُمُّ المومنین حضرت اُمِ سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا
اُمُّ المومنین حضرت اُمِ سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے والد قریش کے چند مشہورِ زمانہ سخی افراد میں سے تھے۔ آپ کی والدہ عاتکہ بنت عامر کنانیہ تھیں، جن کا تعلق معزز قبیلہ بنوفراس …
خلافتِ راشدہ کے نظام میں وسیع تر بامعنی مشاورت اور آج کی جمہوریت
وطنِ عزیز کی سیاست اپنے روز ِقیام ہی سے مختلف نعروں سے عبارت رہی ہے، جیساکہ ہم نے گزشتہ ماہ کے شذرات میں یہاں اسلامی نظام کے نمائشی نعروں کے برعکس چند سنجیدہ گزارشات …
ابو عمارہ، سیّدِ شہدا ء حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہٗ
ابو عمارہ، سیّدِ شہداء حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہٗ مہاجرینِ اوّلین میں سے ہیں۔ آپؓ رسول اللہ ﷺ کے چچا، رضاعی بھائی اور آپؐ سے صرف دو سال بڑے تھے، گویا آپؐ کے ہم عمر تھے۔ حضرت ح…
حضرت ثابت بن قیس بن شماس اَنصاریؓ ’خطیبُ النبیؐ‘
حضرت ثابت بن قیس بن شماس خزرجیؓ اَنصار کے اور رسول اللہ ﷺ کے ’’خطیب‘‘ کے لقب سے ملقب تھے۔ فصاحت و بلاغت اور خطابت میں آپؓ کو بڑی مہارت حاصل تھی، اس …