حضرت عبادہ بن صامتؓ کا تعلق قبیلہ خزرج کے خاندان سالم سے ہے۔ بنوسالم کے مکانات مدینہ کے غربی سنگستان کے کنارے قبا سے متصل واقع تھے۔ یہاں ان کے کئی قلعے بھی تھے، جو ’’اُطمِ قوافل‘‘ کے نام سے مشہور ہیں۔ اس بنا پر آپؓ کا مکان مدینہ سے باہر تھا۔ آپ اسلام کے آغاز سے ہی دین قبول کر چکے تھے۔ اَنصار کے جو وفد حج کے موقع پر 3 سال تک مدینہ سے مکہ آئے تھے، آپؓ ان سب میں شامل تھے۔ پہلا وفد جو دس آدمیوں پر مشتمل تھا، آپؓ اس میں شامل تھے اور چھ آدمیوں کے ساتھ آں حضرت ﷺ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔ اربابِ علم کی ایک جماعت کا یہی خیال ہے۔ (فتح الباری) اگرچہ کثرتِ رائے ان کے اسلام کو دوسری بیعت تک موقوف سمجھتی ہے، جس میں بارہ آدمیوں نے دینِ اسلام قبول کیا تھا۔ (مسند احمد) تیسری بیعت جس میں 72 اشخاص شامل تھے، حضرت عبادہؓ کی اس میں بھی شرکت تھی۔ (مسنداحمد) اخیر بیعت میں ان کو یہ شرف حاصل ہوا کہ آں حضرتؐ نے ان کو خاندانِ قوافل کا نقیب (سردار) تجویز فرمایا۔
حضرت عبادہؓ فرماتے ہیں کہ ہم نے حضوؐر سے ان شرائط پر بیعت کی تھی کہ چستی اور کاہلی ہر حالت میں آپؐ کا کہنا مانیں گے۔ فراخی اور تنگی میں مالی امداد دیں گے۔ اچھی باتیں آگے پہنچائیں گے۔ بُری باتوں سے روکیں گے۔ سچ کہنے میں کسی سے نہ ڈریں گے۔ حضوؐر یثرب تشریف لائیں گے تو مدد کریں گے اور جان ومال اور اولاد کی طرح آپؐ کی نگہبانی کریں گے۔ ان سب باتوں کا صلہ جنت کی صورت میں دیا جائے گا۔ پس ان باتوں پر پورے طور سے عمل کرنا چاہیے اور جو نہ کرے، وہ اپنا خود ذمہ دار ہے۔ (مسنداحمد)
حضرت عبادہ بن صامتؓ کی زندگی شروع ہی سے ولولہ انگیز ہے۔ مکہ سے مسلمان ہوکر واپس مدینہ آئے تو اپنے گھر پہنچتے ہی اپنی والدہ کو مشرف بہ اسلام کیا۔ (زرقانی) حضرت کعب بن عجرہ آپؓ کے ایک دوست تھے، جو آپؓ کی دعوت اور محنت سے حلقہ بگوشِ اسلام ہوئے۔ آں حضرتؐ نے مدینہ پہنچ کر انصار و مہاجرین میں باہمی بھائی چارہ قائم کیا تو حضرت ابو مرثد غنویؓ کو حضرت عبادہؓ کا بھائی تجویز فرمایا۔ غزوۂ بدر اور حدیبیہ میں بیعت الرضوان میں بھی آپؓ شریک تھے۔ خلافت ِصدیقی میں شام کی بعض لڑائیوں میں شریک رہے۔ مصر کی فتح میں آپؓ کا گراں قدر حصہ تھا ۔ (مسنداحمد)
حضرت عبادہؓ تادمِ مرگ شام میں سکونت پذیر رہے۔ 34 ہجری میں آپؓ کی وفات ہوئی، اس وقت آپؓ کی عمر 72 سال تھی۔ وفات سے پہلے بیمار رہے۔ لوگ عیادت کو آتے تھے۔ فرمایا کہ جتنی حدیثیں ضروری تھیں، تم لوگوں تک پہنچا چکا، البتہ ایک حدیث باقی تھی، اس کو اب بیان کیے دیتا ہوں۔ میں نے رسول اللہؐ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ: ’’مَن شَہِد أن لاَّ إلٰہ إلاَّ اللّٰہ، و أنّ محمّداً رسولُ اللّٰہ، حرّمَ اللّٰہُ علیہِ النّار‘‘(مسلم: 29) (جس نے اس بات کی گواہی دی کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بے شک محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں، اس پر اللہ نے جہنم کی آگ حرام فرمادی)۔ حضرت عبادہؓ حدیث بیان کرچکے تو روح جسم کو الوداع کہہ کر جوارِ رحمت میں پرواز کر گئی۔
ٹیگز
مولانا قاضی محمد یوسف
مولانا قاضی محمد یوسف کا شمار حضرت اقدس شاہ سعید احمد رائے پوری ؒ کے خلفاء مجازین میں ہوتا ہے۔ مدرسہ اشرفیہ تعلیم القرآن (حسن ابدال) اور گوجرانوالا اور جامعہ مدنیہ لاہور میں زیر تعلیم رہے۔ 1988ء میں فاضل عربی/ فاضل اردو کی سند حاصل کرنے کے بعد پنجاب یونیورسٹی لاہور سے ایم۔اے اسلامیات اور طبیہ کالج راولپنڈی و نیشنل طبّی کونسل پاکستان سے طب کی باقاعدہ تعلیم بھی حاصل کی۔ 1980 کی دہائی میں دوران تعلیم حضرت مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ کی فکری جدوجہد سے منسلک ہوئے۔ 1991 میں جامعة الملك السعود الرياض سعودی عرب سے تدریب المعلمین کی سند حاصل کی. اس وقت آپ گورنمنٹ ڈگری کالج واہ کینٹ میں بطور استاد فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔’’جامعہ خادم علوم نبوۃ‘‘ حسن ابدال کے مہتمم اور جامعہ عائشہ صدیقہ حسن ابدال میں مدرس ہیں۔ مسجد خلفائے راشدین میں امامت و خطابت کے فرائض سرانجام دینے کے ساتھ ساتھ اپنا خاندانی مطب بھی چلا رہے ہیں۔ تعلیمی اور فلاحی ادارے "التقویٰ ٹرسٹ" کے سرپرست، کامیاب استاد و منتظم اور طبیب و خطیب ہیں۔ حضرت مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری مدظلہ کی سرپرستی میں خانقاہ رحیمیہ اور ادارہ رحیمیہ کے فکروعمل کی ترویج میں کوشاں ہیں۔ ماہنامہ مجلہ "رحیمیہ" میں "صحابہ کا ایمان افروز کردار" کے عنوان سے سلسلہ وار لکھ رہے ہیں۔
متعلقہ مضامین
اُمُّ المومنین حضرت اُمِ سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا
اُمُّ المومنین حضرت اُمِ سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے والد قریش کے چند مشہورِ زمانہ سخی افراد میں سے تھے۔ آپ کی والدہ عاتکہ بنت عامر کنانیہ تھیں، جن کا تعلق معزز قبیلہ بنوفراس …
خلافتِ راشدہ کے نظام میں وسیع تر بامعنی مشاورت اور آج کی جمہوریت
وطنِ عزیز کی سیاست اپنے روز ِقیام ہی سے مختلف نعروں سے عبارت رہی ہے، جیساکہ ہم نے گزشتہ ماہ کے شذرات میں یہاں اسلامی نظام کے نمائشی نعروں کے برعکس چند سنجیدہ گزارشات …
ابو عمارہ، سیّدِ شہدا ء حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہٗ
ابو عمارہ، سیّدِ شہداء حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہٗ مہاجرینِ اوّلین میں سے ہیں۔ آپؓ رسول اللہ ﷺ کے چچا، رضاعی بھائی اور آپؐ سے صرف دو سال بڑے تھے، گویا آپؐ کے ہم عمر تھے۔ حضرت ح…
حضرت ثابت بن قیس بن شماس اَنصاریؓ ’خطیبُ النبیؐ‘
حضرت ثابت بن قیس بن شماس خزرجیؓ اَنصار کے اور رسول اللہ ﷺ کے ’’خطیب‘‘ کے لقب سے ملقب تھے۔ فصاحت و بلاغت اور خطابت میں آپؓ کو بڑی مہارت حاصل تھی، اس …