ہمارے مربی ومحسن (حضرت اقدس مولانا شاہ سعیداحمد رائے پوریؒ )

مولانا مفتی عبدالقدیر
مولانا مفتی عبدالقدیر
ستمبر 22, 2021 - سوانح عمری
ہمارے مربی ومحسن (حضرت اقدس مولانا شاہ سعیداحمد رائے پوریؒ )

ہمارے مربی ومحسن 
حضرت اقدس مولانا شاہ سعیداحمد رائے پوریؒ                                        
از: مولانا مفتی عبدالقدیر، چشتیاں

حضرتِ اقدس ؒ سے ابتدائی تعارف:

حضرت اقدس مولانا شاہ سعیداحمد رائے پوری سے ابتدائی تعارف کچھ یوں ہوا کہ 1974-75ء میں دینی تعلیم کے دوران ہم حضرت مولانا پروفیسر حسین احمد علویؒ کے رفیق اور اپنے استاذِ مکرم مولانا خدا بخش میلسوی ثم ملتانی ؒ سے حضرت اقدس  رائے پوری رابعؒ کا تذکرہ ’’شیخ الہند ثانی‘‘ کے لقب سے سنتے تھے۔ اسی دوران چشتیاں (ضلع بہاولنگر) میں حضرت علویؒ اور رانا محمد عباس صاحب (متعلقین سلسلۂ رائے پور) کے ہاں دو تین مرتبہ حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوری ثالثؒ اور ان کے باسعادت صاحبزادے حضرت شاہ سعیداحمد رائے پوریؒ کی دو تین بار زیارت بھی ہوئی۔ اسی زمانے میں ایک مرتبہ حضرت اقدس شاہ عبدالعزیزرائے پوریؒ مرکزی جامع مسجد چشتیاں میں جمعہ کی نماز پڑھنے کے لیے آئے۔ اور پھر حضرت مولانا عبد العزیز (والد صاحب مرحوم) کی دعوت پر جامع مسجد سے متصل ان کے زیر اہتمام جامعہ اشاعت العلوم میں تشریف لائے۔ پانی نوش کیا اور دعا فرمائی۔ بندہ کے سر پر دست شفقت رکھا۔ 

1979ء میں مشکوٰۃ شریف کے درجہ سے فراغت کے بعد حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوریؒ سے فیصل آباد کے قیامِ رمضان 1399ھ میں 29 ویں شب کو ختم قرآن اور دعا کے بعد دو تین ساتھیوں کے ہمراہ بیعت کا شرف حاصل ہوا۔ اگلے روز صبح کو حضرت شاہ سعید احمد رائے پوریؒ اور محترم سید مطلوب علی زیدی سے ملاقات ہوئی۔ حضرت نے فرمایا: ’’ہم انھیں اپنے بزرگوں کا نظریہ بھی سمجھائیں گے۔‘‘ 
1980ء میں دورۂ حدیث شریف کے لیے جامعہ علومِ اسلامیہ بنوری ٹاؤن کراچی میں داخلہ لیا تو وہاں حضرت اقدس شاہ سعیداحمد رائے پوریؒ کا اکثر آنا جانا تھا۔ جامعہ کے مہمان خانے میں حضرتؒ کا قیام رہتا تھا۔ اس دوران حضرت اقدس رائے پوری رابعؒ سے چند ایک بار ملاقات ہوئی۔ عقیدت سے سلام لیا، مگر تعلیمی مصروفیات کی وجہ سے حضرت سے تفصیلی ملاقات نہ ہوسکی۔ 

حضرت رائے پوری رابعؒ اور بیداری شعور کا حکیمانہ انداز

جامعہ میں تخصّص فی الفقہ الاسلامی سے فراغت کے بعد شعبان و رمضان 1403ھ / جون 1983ء کی تعطیلات میں سرگودھا میں حضرت اقدس شاہ عبدالعزیز رائے پوریؒ کی صحبت میں وقت گزرا۔ حضرتؒ کی خدمت میں اپنی اصلاح کے لیے وقت لگانے گئے تواساتذہ کی ہدایت کے مطابق شروع شروع میں حضرت شاہ عبدالعزیز رائے پوریؒ کے پاس بیٹھتے۔ آپؒ کے پاس عصر کے بعد ملاقات کے لیے، یا ذکر کے دوران صحبت کا وقت ہوتا تھا۔ نقشبندی طریقے کے مطابق مجلس میں مراقبہ کی کیفیت میں خاموشی چھائی رہتی۔ قادری طریقے کے مطابق ذکر بلند آواز سے ہوتا۔ اس دوران حضرت نے ہمیں فرمایا کہ: ’’مولانا سعیداحمد صاحب کے پاس بیٹھا کرو اور ان سے ذکر کا طریقہ سیکھ لو!۔‘‘ 

چنانچہ حضرت اقدس رائے پوری ثالثؒ کے حکم سے حضرت مولانا شاہ سعیداحمد رائے پوریؒ کی مجالس میں حاضری دینا شروع کی اور ذکر کا طریقہ بھی سیکھا۔ حضرت اقدس مولاناؒ نے پہلی مجلس میں ہماری تعلیم اور تخصّص کے بارے میں پوچھا اور اس حوالے سے ہماری کتابی معلومات پر خوب حوصلہ افزائی کی۔ پھر مشفقانہ انداز میں عملی حوالے سے چند سوالات کیے اور ان پر غور و فکر کی دعوت دی۔ 
حضرت مولانا شاہ سعیداحمد رائے پوریؒ نے فرمایا: ’’تم کراچی میں پڑھ کر آئے ہو، یہ بتلاؤ کہ اس وقت کراچی کے بااَثر طبقوں کے لوگ کس قدر اپنے بچوں کو دین سکھلانے کے لیے بھیجتے ہیں؟‘‘ ہم نے کہا: ایک فی صد بھی نہیں بھیجتے، مگر وہ چندہ دیتے ہیں۔ حضرتؒ نے فرمایا: ’’تم اپنے شہر میں بتلاؤ! سکولوں اور کالجوں میں طلبا و طالبات کی تعداد کس قدر ہوتی ہے اور دینی مدارس میں کس قدر؟‘‘ اسی طرح حضرتؒ نے فرمایا کہ: ’’کراچی یا دیگر شہروں کے مدارس سے فارغ التحصیل ہونے والوں کی زیادہ تر تعداد پس ماندہ علاقوں سے تعلق رکھتی ہے اور وہی ائمہ مساجد ہوتے ہیں۔ جب کہ امرا، حکمران اور تاجر طبقوں کی اَولادیں عیسائیوں کے مشنری سکولوں میں چلی جاتی ہیں۔ جنھوں نے ہم پر حکومت کرنی ہے، وہ تو عیسائیوں کے زیر اثر آجاتے ہیں اور ہمارے علما کمزور حالت رہتے ہیں۔‘‘ حضرتؒ نے یہ سوال بھی کیا کہ: ’’علما جدید طبقے سے مرعوب کیوں ہیں؟ ایک عالم اور مفتی موجودہ دور میں سیاسی، معاشی اور سماجی حوالے سے ان کے سوالات کا جواب کیوں نہیں دے سکتا؟‘‘ وغیرہ۔ 

ہم نے ان تمام سوالات سے جان چھڑانے کے لیے عام علماء کے عمومی مذہبی رویے کا سہارا لیتے ہوئے کہا: ’’قیامت کا قرب ہے۔ ہمارے اساتذہ نے کہا تھا کہ جو حالات ہیں، اس میں جتنا اسلام پر عمل ہوسکے، اتنا غنیمت ہے۔ حالات کا مقابلہ توحضرت امام مہدی اور حضرت عیسی علیہما السلام آکر کریں گے۔‘‘ حضرت اقدسؒ نے اس پر بڑے نرم انداز سے سوالات شروع کردیے کہ: ’’اس کا مطلب یہ ہوا جب تک وہ حضرات ؑنہ آئیں تو ہم دین کے غلبے کے لیے کوشش نہ کریں؟ حال آںکہ ہمیں تو کوشش کرنی چاہیے کہ دین کا غلبہ قائم ہو۔ ہمیں اس حوالے سے حکمت ِعملی بنانے کی ضرورت ہے۔‘‘ 

اس کے بعد حضرت اقدس رائے پوری رابعؒ نے ہمیں نظامِ حکومت کے بُرے اثرات سے آگاہ کیا اور اس کے نتائجِ بد بتلائے اور وضاحت کے ساتھ اس حقیقت کی نشان دہی کی کہ مایوسی اور مرعوبیت اسلام میں نہیں ہے، بلکہ اسے ختم کرکے جرأت اور ہمت کے ساتھ دین کے غلبے کے لیے کام کرنا ضروری ہے۔ حضرت امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ سے لے کر حضرت مدنیؒ، حضرت سندھیؒ اور حضرت رائے پوریؒ تک علما نے زوال کے زمانے میں مایوسی اور مرعوبیت قریب نہیں پھٹکنے دی اور غلبہ دین کے لیے قربانیاں دیں۔ اس طرح حضرت اقدس رائے پوری رابعؒ کی مجالس میں بیٹھنے اور ان کی صحبت سے دن بدن دینی حوالے سے شعور کی آنکھ کھلنی شروع ہوئی۔ اور اما م شاہ ولی اللہ دہلویؒ سے لے کر حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوریؒ تک اکابر کا طریقۂ فکر وعمل واضح ہوا۔ اس طرح ولی اللّٰہی فکر کی اہمیت سامنے آئی۔

حضرت اقدس رائے پوریؒ کی صحبت سے ہمیں یقین ہوگیا کہ گزشتہ زمانہ کی طرح دین اسلام آج بھی دین فطرت ہے۔ دین ہمیشہ غالب رہنے کے لیے آیا ہے، دین فیل نہیں ہوتا، بلکہ مذہبی طبقہ غلط حکمت ِعملی کی وجہ سے ناکام ہوتا ہے۔ دین تو مظلوم انسانیت کے حقوق بجا لانے کا طریقۂ کار واضح کرتا ہے۔ اسلام کی لڑائی نظامِ ظلم سے ہے، خواہ یہ ظلم مسلمان ہی کیوں نہ کرے۔ اسلام ظالم کے خلاف، مظلوم کا مددگار اور خیر خواہ ہے۔ اسلام دنیا میں سیاسی، معاشی، سماجی عدل اور امن کا عَلم بردار بن کر آیا ہے۔ اس تناظر میں آج کے دور میں سامراج کے آلہ کار ظالم حکمرانوں کے خلاف عوام میں سماجی شعور بیدار کرنا اور اسلام اور قرآن کی انقلابی تعلیمات کو اکابر کے تسلسل کی روشنی میں فروغ دینا مدارس کا اصل فریضہ ہونا چاہیے۔ حضرت اقدسؒ کا نوجوانوں میں یہ نظریہ اور شعور بیدار کرنا بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ مسلمانوں پر حضرت اقدسؒ کا یہ عظیم احسان ہے کہ انھوں نے 90 سالہ زندگی اس مشن میں کھپادی، جس مشن کو انبیائے کرام ؑ، بالخصوص نبی اکرمؐ اور خلفائے راشدینؓ نے پورا کرکے دنیا میں عدل و انصاف کا نظام قائم کیا تھا۔ 

حضرت شیخ احمد سرہندیؒ مجدد الف ثانی نے ہزارۂ دوم میں دینی نشأۃ ثانیہ کے جس کام کی اساس رکھی، امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے جس پر تعمیر کی، حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ  اور حضرت عالی شاہ عبدالرحیم رائے پوریؒ  نے اس کام کی تزئین و آرائش کی۔ ان حضراتؒ کے جانشین خلفائے کرام حضرت اقدس شاہ عبدالقادر رائے پوریؒ، حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ دہلوی ؒ، مولانا سیدحسین احمد مدنیؒ، حضرت مولانا عبیداللہ سندھیؒ، حضرت مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوریؒ، حضرت مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری قدس اللہ اسرارہم نے دین اسلام کو نہایت عقل مندی اور حکمت کے ساتھ نوجوانوں کے اذہان میں اس انداز سے آگے بڑھایا کہ وہ دوبارہ اسلام کو دین فطرت اور دین انسانیت سمجھنے لگے ہیں۔ 

26؍ ستمبر 2012ء کو حضرت اقدس شاہ سعیداحمد رائے پوریؒ گو اللہ کو پیارے ہوگئے مگر ہزاروں نوجوان آپؒ کا احسان کبھی بھول نہیں پائیں گے۔ آپؒ نے زوال کے اس دجالی دور میں اسلام کی حقیقی ترجمانی کا سلسلہ ٹوٹنے نہیں دیا۔آج آپؒ کے برحق جانشین حضرت اقدس مولانا مفتی شاہ عبدالخالق آزاد رائے پوری دامت برکاتہم العالیہ آپ کی جماعت کے تعاون سے آپؒ کے چھوڑے ہوئے کام کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے میں رات دن کو شاں ہیں۔ ولی اللّٰہی فکروعمل کی تحقیق و اشاعت اور اس پر علماء اور دانشوروں کی مسلسل روحانی و اَخلاقی تربیت اور نوجوانوں میں تحریک کی بیداری ان کا رات دن اوڑھنا بچھونا ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کا سایۂ عاطفت نوجوانوں پر ہمیشہ قائم رکھے۔ آپ کی زیرسرپرستی غلبہ دین کا مشن پوری جامعیت کے ساتھ غالب کرنے کی ہم سب کو توفیق عطا فرمائے۔ آمین! 

ماخذ: ماہنامہ رحیمیہ لاہور،ستمبر 2015ء

مولانا مفتی عبدالقدیر
مولانا مفتی عبدالقدیر

مولانا مفتی عبدالقدیر ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ (ٹرسٹ) لاہور کے ڈائریکٹر اکیڈمک اور حضرت اقدس شاہ سعید احمد رائے پوری ؒ کے مجازین میں سے ہیں۔ حضرت اقدس شاہ عبد العزیز رائے پوریؒ سے شرفِ بیعت حاصل کیا اور سلوک کی منازل طے کیں۔ وفاق المدارس العربیہ پاکستان سے شہادۃ العالمیہ کے امتحان میں نمایاں پوزیشن حاصل کی۔ 1980ء میں جامعہ علومِ اسلامیہ بنوری ٹاؤن کراچی سے فراغت اور مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی ولی حسن ٹونکیؒ کی نگرانی میں تخصص فی الفقہ مکمل کیا۔ ازاں بعد جامعہ اشاعت العلوم چشتیاں میں درس و تدریس میں مصروفِ عمل ہوگئے۔ جامعہ اشاعت العلوم چشتیاں کے مہتمم، شیخ الحدیث اور شیخ التفسیر ہیں۔  ملک گیر تعلیمی سلسلہ "رحیمیہ نظام المدارس" کے ناظم اعلیٰ کے طور پر بھی ذمہ داریاں انجام دے رہے ہیں ۔ ماہنامہ رحیمیہ لاہور میں ہر ماہ درپیش مسائل پر شرعی رہنمائی پر مبنی آپ کا کالم اشاعت پذیر ہوتا ہے ۔ چشتیاں اور اس کے گرد و نواح میں سینکڑوں طلبا آپ سے تعلیم حاصل کرچکے ہیں اور ادارہ رحیمیہ سے منسلک نوجوان آپ سے رہنمائی حاصل کر رہے ہیں۔

 

متعلقہ مضامین

حضرتِ اقدس شاہ سعید احمد رائے پوریؒ کا طریقۂ تعلیم و تربیت

حضرتِ اقدس شاہ سعید احمد رائے پوریؒ کا طریقۂ تعلیم و تربیت از: حضرت مولانا مفتی ڈاکٹر سعیدالرحمن اسلام کے اخلاقی نظام کا مطمح نظر: اس دنیا میں انسانی معاشرے کی …

ڈاکٹر مفتی سعید الرحمن ستمبر 15, 2021

حضرت اقدس رائے پوری رابعؒ کے مشن کی اہمیت

دنیائے انسانیت میں پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم کی ذاتِ اقدس سے کوئی بڑا نہیں ہوا اور نہ ہوگا ۔ آپ دونوں جہانوں کے سربراہ ہیں۔ آپ ﷺ پر شریعت اُتری ، کتاب اتری ۔ آپ ﷺ کی ذاتِ …

مفتی عبدالمتین نعمانی ستمبر 21, 2021

حضرت رائے پوری رابعؒ (یادوں کے دریچے)

حضرت رائے پوری رابعؒ (یادوں کے دریچے) ڈاکٹر عبدالرحمن رائو (مضمون نگار حضرتِ اقدس مولانا شاہ سعیداحمد رائے پوریؒ کے چھوٹے بھائی راؤ رشیداحمد مرحوم کے صاحبزادے ہیں۔ جنھ…

ڈاکٹر عبدالرحمن راؤ ستمبر 27, 2021

امام حکمت وعزیمت حضرت اقدس شاہ سعید احمد  رائے پوری ؒ

امام حکمت وعزیمت حضرت اقدس شاہ سعید احمد رائے پوری ؒ از: مولانا محمد مختار حسن حضرت اقدس مولانا شاہ سعیداحمد رائے پوریؒ نے اپنی پوری زندگی نوجوانوں میں اپنے بزرگ…

مولانا مفتی محمد مختار حسن ستمبر 27, 2021