غلبۂ دین کی نبوی حکمت عملی اور نوجوانوں کی ذمہ داریاں

مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری
مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری
اکتوبر 14, 2021 - اہم مضامین
غلبۂ دین کی نبوی حکمت عملی اور نوجوانوں کی ذمہ داریاں

خطاب حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ
 
 (کہروڑ پکا میں بخاری چوک میں واقع جامع مسجد تالاب والی میں 14فروری 2009ء بروز ہفتہ کو عشاء کی نماز کے بعد سیرت النبی ﷺ کے حوالے سے ایک بڑے سیمینار کا اہتمام کیا گیا تھا۔ اس سیمینار میں حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ ،حضرت مولانا مفتی ڈاکٹر سعید الرحمن ، حضرت مولانا مفتی عبد الخالق آزاد، حضرت مولانا مفتی عبد المتین نعمانی ، حضرت مولانا مفتی عبد القدیر نے خطابات فرمائے تھے۔ اس موقع پر مسجد کا وسیع ہال اور اس کا برآمدہ بھی حاضرین سے کھچا کھچ بھرے ہوئے تھے۔ اہل علاقہ نے پوری سنجیدگی اور توجہ سے خطابات سنے اور انہیں بہت زیادہ دینی فائدہ ہوا۔ حضرت اقدسؒ کا خطاب تقریباً ایک گھنٹہ جاری رہا، ذیل میں یہ خطاب پیش کیا جارہا ہے۔)
نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم،اما بعد! فاعوذ باللہ من الشیطان الرجیم: ہو الذی ارسل رسولہ بالہدیٰ و دین الحق لیظہرہ علی الدین کلہ و کفی باللہ شہیدا، صدق اللہ العظیم۔ 
موجودہ دور کے قومی و بین الاقوامی مسائل 
میرے قابل احترام حاضرین مجلس!  ہمیں آج غفلت سے نکل کر زندگی بسر کرنا ہوگی۔ آج ہم جس دور سے گزر رہے ہیں، اس میں کفر اور ظلم غالب ہے اور ہم مغلوب ہیں۔ حضرت الامام شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کے زمانہ میں ہندوستان میں مسلمان بادشاہوں کی حکومت تھی اور فقہ اسلامی پر فیصلے ہوتے تھے، اسی طرح ترکی کی خلافت عثمانیہ بہت بڑے علاقہ پر قائم تھی، فقہ اسلامی پر نظام چل رہا تھا۔ لیکن اس دور میں امام شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس وقت نظاموں میں انقلاب لانے کی ضرورت ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ دیکھ رہے تھے کہ اس وقت حکمران طبقہ غافل، سست اور نااہل ہو چکا ہے، اور انسانی مسائل کو حل کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا۔ وہ عیش پرست اور خود غرض ہو چکا ہے، آپ فرماتے ہیں کہ اگر حکمرانوں کو دیکھو تو یہ قیصر و کسریٰ کے راستہ پر چل رہے ہیں، اس سے معلوم ہوا کہ اس وقت نظام اسلامی تھا اور حکمران بھی مسلمان تھے، لیکن وہ صلاحیت سے محروم ہوچکے تھے، اس لئے تبدیلی اور انقلاب کی ضرورت تھی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد بھی ہے کہ ’’جب کوئی کام کسی نااہل کے سپرد کر دیا جائے تو اس وقت قیامت کا انتظام کرو‘‘۔
 میرے دوستو!  آج کیا حال ہے، ہم کتنے سست ہیں، کفر کا غلبہ ہے، آج مسلمانوں کے ساٹھ ملک ہیں، مسلمانوں کی اکثریت ہے، لیکن نظام سارا کفر اور ظلم کا ہے۔ آپ خود سوچیں کہ یہ ملک ’’اسلامی جمہوریہ‘‘ ہے اور باسٹھ سال ہوگئے ہیں، لیکن حال یہ ہے کہ یہاں مذہبی طبقہ یتیم نظر آتا ہے، آج مسجد میں 5 فیصد آدمی اور نمازی ہیں، اس میں نوجوان طاقت نہیں رہی اور 95 فیصد مسجد سے باہر ہیں اور 5 فیصد میں بھی سارے فرقے آجاتے ہیں۔ مساجد کا نظریہ آزادی حاصل کرنے، ظلم مٹانے کا اور عدل و انصاف کی سیاست کو غالب کرنے کا تھا۔ لیکن دورِ غلامی میں انگریز سامراج نے فرقہ واریت کو ہماری عادت بنا دیا اور 5 فیصد طبقہ جو مسجد سے وابستہ ہے، وہ آپس میں لڑتے ہیں اور ایک دوسرے کے پیچھے نماز نہ پڑھنے کے فتوے دیتے ہیں۔ حالانکہ ہمارے غلبہ کے دور میں نظامِ تعلیم میں کوئی تقسیم نہیں ہے، اسی تعلیم سے قاضی پیدا ہوتے ہیں اور اسی سے سیاستدان پیدا ہوتے ہیں، مذہبی رہنما پیدا ہوتے ہیں، انگریز نے یہاں رہتے ہوئے نظامِ تعلیم کو تقسیم کردیا۔ دو نظامِ تعلیم بنادئیے، ایک جدید طبقہ کے لئے دوسرا قدیم طبقہ کے لئے، اس تقسیم کے بہت خطرناک نتائج نکلے ہیں۔ 
سماج میں مسجد کی اہمیت اور مسجد نبوی کا کردار
جب ایسا نظام قائم ہوتا ہے، جس میں امن اور خوشحالی ہو اور ہر انسان دوسرے انسان کا خیرخواہ ہو، فرمانِ نبویؐ ’’خیر الناس من ینفع الناس‘‘کا نقشہ ہو اور سیاست عدل کی ہو، پھر انسان روحانی ترقی کرتا ہے، عبادات کا نتیجہ متقی بنانا ہے، پرہیز گار بنانا ہے، جب عبادات نتیجہ پیدا کرتی ہیں تو اس وقت انسان انسان کا خیرخواہ بن جاتا ہے، ظلم مٹانے والا بن جاتا ہے، ہر بری خصلت سے نفرت ہوجاتی ہے۔ لیکن آج حالت یہ ہے کہ ہم دوڑ بھاگ کر آتے ہیں اور 5 منٹ مسجد میں رہتے ہیں، فوری طور پر واپسی کی کوشش کرتے ہیں، اور مسجد میں بھی ہر وقت خطرہ لگا رہتا ہے، تو ایسی حالت میں سکون کے ساتھ نماز کیسے پڑھی جاسکتی ہے!، اس لئے عبادات کے نتائج سے محروم ہیں۔ آج ہم مسجد میں آنے والوں کو فرقہ واریت کے متعلق تو بتاسکتے ہیں، لیکن نظام کے خلاف ان کو ذہن نہیں دے سکتے، کیوں کہ مسجد پر قبضہ ان لوگوں کا ہے، جن کا نظریہ اس ظالمانہ نظام کو تحفظ دینا ہے، آج ہم مسجد کو ووٹ نہیں دے سکتے، کیوں کہ نمازی کی تربیت نہیں کی گئی، طاقت پیدا نہیں کی گئی، حالت تو یہ ہے کہ اگر کسی مسجد میں سیاست کی بات کردی جائے تو نمازی بے شعوری سے کہتا ہے کہ آپ نے تو دنیاداروں کی بات کردی۔
 مولانا محمد الیاس دہلویؒ  فرماتے ہیںکہ دنیا کی ساری مساجد مسجد نبویؐ کی بیٹیاں ہیں، جب تک تمام مساجد میں مسجد نبویؐ جیسی سیاست نہیں ہوگی، اس وقت دین ترقی نہیں کرسکتا اور معاشرے میں انقلاب برپا نہیں ہوسکتا۔ مکہ کے لوگ نبوت سے پہلے آپؐ کی تعریفیں کرتے ہیں، لیکن نبوت کے بعد جب آپؐ نظریہ عدل کا پیش کرتے ہیں، تو سارے آپؐ کے مخالف ہو جاتے ہیں، اور آپؐ کے خلاف الزام تراشیاں شروع کردیں، لیکن حضورؐ استقامت کے ساتھ اس ظالمانہ نظام کے خلاف اپنی جماعت کو منظم کرتے رہے، تو اس سے معاشرے میں تبدیلی کا عمل پیدا ہوجاتا ہے، اور پھر یہ سارا کام حضورؐ نے انسانیت کے فائدے کے لئے سرانجام دیا، اس لئے جہاں پر آپؐ کو اپنے مخالفین سے لڑنے کی نوبت آتی ہے، تو ہر کسی کو قتل کرنے کا حکم نہیں دیا گیا بلکہ جو لوگ میدانِ جنگ میں آتے تھے، صرف انہی کو قتل کیا جاتا تھا، اس لئے صحابہ کرام کو یہ ہدایات دی جاتی تھیں کہ جو لوگ اپنے گھروں کے دروازے بند کرلیں، ان کو قتل نہ کیا جائے، عبادت خانوں میں موجود لوگوں کو قتل نہ کیا جائے، عورتوں اور بچوں کو قتل نہ کیا جائے، فتح مکہ کے موقع پر بھی حضورؐ نے یہی احکام دئیے۔ کچھ لوگ گرفتار کر کے حضوؐر کی خدمت میں پیش کئے گئے تو آپؐ نے ان سے پوچھا کہ آپ لوگوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے، تو انہوں نے جواب دیا کہ ہمارے عرب کا قانون ہے کہ جو کسی پر فتح حاصل کرلیتا ہے، تو اس کو قتل کردیتا ہے، اگر ہم آپ پر فتح حاصل کرلیتے تو ہم آپ کے سپاہیوں کو قتل کردیتے، اب آپ ہم پر فتح حاصل کرچکے ہیں، لہٰذا آپ ہمیں قتل کردیں۔ حضورؐ نے ان کا فیصلہ سننے کے بعد ان سے فرمایا کہ جاؤ ہم نے تم کو معاف کردیا، ہم کوئی شکایت نہیں کرتے، اس وقت تو وہ لوگ چلے گئے، کچھ عرصہ کے بعد آئے اور کہنے لگے کہ اے اللہ کے رسول ہم کو مسلمان بنالیں، حضورؐنے پوچھا کہ اس وقت مسلمان کیوں نہیں ہوئے تو انہوں نے جواب دیا کہ اگر ہم اس وقت مسلمان ہوتے تو ہمارے بارے میں لوگ یہ کہتے کہ یہ لوگ اپنی جان بچانے کے لئے مسلمان ہوئے ہیں، یہ تو منافقت ہوتی۔ دوسری بات جو ہمارے ذہن میں تھی وہ یہ کہ یہ نیانظام آیا ہے، دیکھیں تو سہی پہلے والے اور اس نئے نظام میں کیا فرق ہے، انہوں نے کہا کہ ہم نے یہ دیکھا کہ آپ کے تیار کردہ لوگ تو ہمارے لئے رحمت کے فرشتے ہیں، انہوں نے ہماری وہ عزت کی اور وہ برتاؤ کیا جو اپنے بھائیوں کیساتھ نہیں کیا جاتا، ان سے زیادہ سچا عدل و انصاف والا نظام نہیں ہے۔ اس لئے آج ہم مسلمان ہوئے ہیں۔ 
سیرۃ مبارکہ ﷺ ؛ ظلم کا تدارک
میرے دوستو!  یہ دین پوری انسانیت کا ہے، آج ہم نے عقیدہ کی بنیاد پر دوسروں سے نفرت شروع کردی، حالانکہ ایک کافر ظالم، اور دوسرا مظلوم ہے، اسی طرح ایک کافر سردار اور دوسرا مزدور ہے، اس مزدور اور مظلوم سے نفرت کرنے کا کیا مطلب ہے، پھر تبلیغ کس کو کروگے۔ اسلام تو طاغوت اور طاغوتی نظام سے لڑائی کی بات کرتا ہے، تمام انسانوں سے نہیں لڑتا اور عقیدہ کے بنیاد پر نہیں لڑتا۔ ایک دفعہ حضوؐر تشریف لا رہے تھے، مکہ فتح کرنے کے لئے تو ایک آدمی نے صحابہ کرام سے پوچھا کہ کہاں جارہے ہو  تو جواب دیا کہ مکہ والوں سے لڑائی کرنے جارہے ہیں، تو اس نے کہا کہ وہ تو متوسط معیشت کے مالک لوگ ہیں، تجارت کرتے ہیں، مالِ غنیمت میں آپ کو کیا ملے گا اور نہ ہی جنگ میں خوبصورت عورتیں ملیں گی۔ میں تم کو ایک سردار کا پتہ بتاتا ہوں کہ اگر تم اس پر فتح کروگے تو بہت سارا مالِ غنیمت اور خوبصورت عورتیں مالِ غنیمت میں ملیں گی۔ حضورؐ نے پوچھا کہ یہ آدمی کیا کہہ رہا تھا؟ جب بتایا گیا تو آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ اس بے چارے کو پتہ نہیں کہ ہماری جنگ کا مقصد تو مال حاصل کرنا نہیں ہے، ہمارا مقصد تو ظلم مٹا کر عدل کو قائم کرنا ہے، ظالمانہ سسٹم کو توڑنا ہے اور جس سردار اور قبیلہ کی یہ بات کر رہا ہے، تو مجھے اللہ تعالیٰ نے اس سے جنگ کرنے سے منع کردیا ہے، حالانکہ وہ کافر ہے، کیوں کہ اس سردار اور قبیلہ کا نظام اچھا ہے، خیرخواہ ہے، غریبوں کی مدد کرتا ہے، طبقاتی نظام نہیں ہے، اور یہ کام اللہ کو پسند ہیں۔ اور یہ مکہ میں آپ کا خاندان ہے، جس سے لڑنے کا حکم دیا گیا ہے۔ 
میرے دوستو!  اللہ کو تو ہر وہ کافر بھی پسند ہے، جو کہ ظلم کو مٹاتا ہو، غریبوں کی مدد کرتا ہو، ہاں آخرت میں اس کے غلط عقیدے کے وجہ سے اس کو عذاب دے گا، لیکن دنیا میں فطرت کے تقاضے سے جو کافر بھی عدل کا انقلاب لائے گا، اللہ اس کی مدد کرے گا۔ آپ دیکھتے نہیں کہ ہم عذاب میں مبتلا ہیں، غربت، بدامنی، خوف کے عذاب ہیں، کتنے عذاب ہم پر مسلط ہیں، اللہ کی مدد کیوں نہیں آتی، ہم کیوں غلام ہیں، اور دوسری طرف کافر معاشروں میں انقلاب آرہے ہیں، کیا وہ اللہ کی مدد کے بغیر آرہے ہیں۔ ہمارے سامنے ہے کہ انہوں نے انقلاب کے بعد ترقی حاصل کی اور عزت حاصل کی، مثلاً چائنہ کا ملک ہے، جس پر ہم فتوے لگاتے رہے، وہ پہلے سے کافر ہیں، ہم سے بعد میں آزاد ہوئے، ان کے رہنماء سچے تھے، قربانی دی، جنگ لڑی، اپنی قوم کے خیرخواہ تھے، آج دنیا میں ان کی عزت ہو رہی ہے۔ 
مروجہ تعلیمی نظام کے اثرات و نتائج
آج ہمارا حال یہ ہے کہ نظامِ تعلیم کے ذریعہ سے ہمارے نوجوانوں کو بے دین، مادیت پرست اور بے شعور بنایا جاتا ہے، ہمارے نوجوان کو عیاش بنایا جاتا ہے، ان پر کوئی اسلام اثر نہیں کرتا، کوئی وعظ اثر نہیں کرتا، ہمارا نوجوان لارڈ میکالے کے نظامِ تعلیم کے ذریعہ سے 100 فیصد مسجد سے، مولوی اور قرآن کے پروگرام سے دور ہوجاتا ہے، ہم مسجد والے، مدرسوں والے، پیر صاحب اور دیگر جماعتیں مل کر 5 فیصد لوگوں کو بھی واپس دین کے قریب نہیں لاسکتے۔ ذرا سوچو! کتنا بڑا المیہ ہے کہ مسلمان ملک میں مسلمان اولاد کو اسلام کے قریب لانا ممکن نہیں ہے۔ ہم نے حضوؐر کی حکمت عملی، اسوۂ حسنہ اور علماء ربانیین کی حکمت عملی کو چھوڑ دیا، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج ہماری مساجد نوجوان سے خالی ہیں۔ 
میرے دوستو!  جہاں پر نظامِ ظلم غالب ہو، وہاں اصلاح کا نظریہ کیسے چل سکتا ہے، کتنی غلط بات ہے، دین تو انقلاب کا نظریہ پیش کرتا ہے۔ آپ دیکھیں کہ حضوؐر نے حجاز میں ابتداء کے اندر پندرہ سال میں 313 آدمی تیار کئے اور   ۸ھ؁  میں مکہ فتح ہوا اور اس کے دو سال بعد پورا حجاز مسلمان ہو جاتا ہے، عدل کا غلبہ ہوجاتا ہے۔ حضوؐر کی حکمت عملی دیکھیں کہ آپ کے پاس 300 آدمی ہیں اور مدینہ منورہ کے قبائل 10 ہزار آدمی ہیں اور 10 ہزار آدمیوں کو سیاسی معاہدے میثاقِ مدینہ میں شامل کرلیا کہ آپ نے مکہ کے لوگوں کا ساتھ نہیں دینا، ظالم لوگوں کا ساتھ نہیں دینا اور ہم تمہارے مذہب، عقیدہ اور فرقوں میں مداخلت نہیں کرتے۔ دیکھیں! آپؐ نے کیسی حکمت عملی اختیار فرمائی کہ بغاوتوں اور دوسری شرارتوں کے سارے راستے ختم کردئیے، تو گویا کہ دین کے غلبہ کے بعد اسلام بڑی تیزی سے پھیلتا ہے، ہندوستان میں دیکھیں کہ دین کا نظام غالب ہے اور خوجہ معین الدین اجمیریؒ آتے ہیں اور ان کے ہاتھ پر ہزاروں لوگ مسلمان ہوجاتے ہیں، بابا فریدؒ آتے ہیں تو ہزاروں خاندان مسلمان ہوجاتے ہیں۔ 
حضور ﷺ بطور رحمۃ للعالمین
آج حالت یہ ہے کہ مسلمان اس نظام میں مسلمان نہیں رہ سکتا، حالانکہ 95 فیصد لوگ بھی مسلمان اور حکمران بھی مسلمان ہیں، تو فرق کیا ہے، سوچنے کی ضرورت ہے۔ ہم کیسے مسلمان ہیں، کہ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں اور ہماری اولادیں جہنم میں جانے والی بن رہی ہیں، ایسی حالت میں ہم کیسے مطمئن ہیں، آج ہم ان کی خواہشات کو پورا کرنے کے لئے ان کے لئے محلات بناتے ہیں، گاڑیاں دیتے ہیں، یورپ میں بھیج کر اعلیٰ تعلیم دلاتے ہیں، لیکن مرنے کے بعد جب قبر میں ڈال کر آتے ہیں تو پتہ نہیں چلتا ہے کہ ان کو کونسی جگہ ملے گی جنت کی یا جہنم کی، سوچو!۔ اللہ تعالیٰ والدین کے دل میں یہ جذبہ پیدا کرے کہ وہ اپنی اولاد کے اخلاق کی درست تربیت کرے۔ ورنہ پکڑ ہوگی، جو والدین درست تربیت کریں گے، ان کو جنت اور عرش کا سایہ ملے گا۔ اللہ کا حکم سمجھ کر اپنی بیوی، اولاد، والدین اور اہل محلہ کے حقوق ادا کرنے سے تو جنت ملتی ہے، یہ دنیا نہیںہے، آپ صرف یہ کہہ سکتے ہیں کہ عبادات روحانی ترقی کے لئے ہیں، اور مادی چیزوں کا تعلق انسان کے نظامِ حیات کے ساتھ ہے، اس زندگی تک محدود ہیں، مرنے کے بعد ان سے تعلق ختم ہوجاتا ہے۔ دنیا میں آپ انسانوں کے حقوق توڑیں گے تو اللہ کا عذاب آئے گا۔ بددیانتی کریں گے تو اللہ کا عذاب آئے گا، ہر وہ عمل جس سے انسانی معاشرے کو نقصان ہوتا ہو وہ حرام ہے۔ حضوؐر کافر کے لئے رحمت کیسے ہیں، یعنی آپ ایسا نظام نافذ کریں گے، جس سے اس کافر کے مسائل حل ہوں گے، اس کی پریشانیاں ختم ہوں گی، اس کو امن دیں گے، اس کو کاروبار کے مواقع دیں گے، اس کو خوشحال بنائیں گے۔ اور اس معاشرے کے اندر برے اخلا ق نہیں ہوں گے، اگر معاشرے میں دین غالب ہو، تمام لوگ ایک دوسرے کے خیرخواہ ہوں تو انسان بہت سارے گناہوں سے بچ جاتا ہے، اب صرف عقیدہ کا مسئلہ رہ گیا اور اس کا معاملہ خدا اور اس کی مخلوق جانے۔

دین کا انقلاب پوری انسانیت کے لئے رحمت ہے۔
دیکھیں! کہ ہر قوم اپنے بارہ میں اور اپنے ملک کے بارہ میں سوچتی ہے، لیکن نبی اور آپؐ کی جماعت پوری انسانیت کے بارے میں سوچتی ہے، ہم محبت کو اپنی اولاد اور خاندان کے ساتھ مخصوص کرکے ختم کردیتے ہیں، جب کہ حضورؐ اس محبت کو پوری انسانیت تک پھیلا دیتے ہیں، اسی طرح ہر ملک کی حکومت اپنے ملک کے بارہ میں سوچتی ہے، لیکن نبی کی جماعت پوری انسانیت کی سوچ رکھتی ہے، انسانیت کو لوٹتی نہیں، جیسے ہندوستان پر آٹھ سو سال مسلمان کی حکومت ہے تو یہاں کے سارے وسائل، یہاں کی اقوام پر خرچ ہوتے ہیں، یہاں اولیاء اللہ آئے تو یہاں کے لوگوں کو اپنی قوم سمجھ کر ان کی ہدایت کی بات کی۔ اس کے مقابلہ میں یہاں انگریز غالب آئے تو انہوں نے یہاں کی قوم اور ان کے وسائل کو لوٹا، ان کو بھوکا بنایا، غربت پیدا کی، قحط پیدا کیا۔ یہ تو انسانیت کا دین ہے، ہمارے ہاں ایک مسلمان کے لئے تویہ تبلیغ ہوگی کہ اس کو نمازی بنادیں گے، ایک کافر کے لئے ہمارے پاس کیا تبلیغ ہے، وہ یہ کہ ہم اس کو ظلم سے نجات دلائیں گے، جاگیرداروں سے نجات دلائیں گے۔ مزدور کو یہ کہیں گے کہ سرمایہ دار جو آپ پر ظلم کرتا ہے، اور 12,12 گھنٹے کام لیتا ہے، ہم یہ ظلم ختم کریں گے، یہ دعوت ہوئی، آج تو دنیا میں نظاموں کی دعوت ہے، عقیدہ کی جنگ کہاں ہے۔ جس مذہب نے دنیا میں گیارہ سو سال تک حکومت کی ہو، آج دنیا میں کسی جگہ اس کا مکمل نظام موجود نہیں، کتنی بڑی کمزوری ہے اور جس کا نظام موجود نہیں ہوتا تو اس کی دعوت بھی نہیں چلتی۔ 
جماعت صحابہ کا عملی کردار
جب حضوؐر تشریف لائے تو دنیا ایران اور روم دو سامراجی طاقتوں کی غلام تھی، تو صحابہ کرامؓ نے مظلوم عیسائی، مظلوم یہودی اور مظلوم مجوسی کی جنگ لڑی، ان کو ان کی اپنی ظالم حکومتوں سے آزاد کرایا۔ ایک صحابی کی قربانی ہزاروں اولیاء اللہ کی قربانی سے زیادہ قیمتی ہے، کوئی صحابی سے بڑا ہوسکتا ہے! حضرت ابوبکر، عمر، عثمان اور علی رضی اللہ عنہم قربانی کے لئے جا رہے ہیں، اور ساتھ ان کے نبی بھی قربانی کے لئے تشریف لے کر جارہے ہیں، آج ہمارا کتنا تقدس بن گیا کہ ہمارا کوئی نظریہ ہی نہیں ہے، دعویٰ یہ ہے کہ صحابہ کے نقش قدم پر چلتے ہیں، لیکن ان کا نظام مٹارہے ہیں، کوئی احساس ہی نہیں ہے۔ 
جو قوم غافل ہوتی ہے، وہ عمل نہیں کرتی، آج کے دور میں اصلاح کا نظریہ نہیں چل سکتا۔ نظام ہوگا تو حکمت عملی بنے گی کہ کیسے نوجوانوں کو دین کے قریب لانا ہے، اگر نظام نہیں ہوگا تو پھر کام ممکن نہیں ہوگا۔ جب کفر غالب ہو تو اس وقت غلبۂ دین کا نظریہ ضروری ہوتا ہے، اور پھر اصلاح ہوتی ہے، مسجد نبویؐ کے بارہ میں سوچو کہ وہ خلیفۂ وقت کا مرکز ہے، فوج کا ہیڈکوارٹر ہے، تعلیمی یونیورسٹی ہے، اخلاق سکھانے کی خانقاہ ہے، وظیفہ دینے کے لئے بیت المال ہے۔ آج کے دور میں مسجد میں فرقہ واریت کے علاوہ کیا رکھا ہے، کتنا بڑا ظلم ہے، آج ہم نے فرقوں کی مسجدیں بنالیں، حالانکہ مسجد تو عدل و انصاف کے قیام اور اللہ سے تعلق کے لئے ہوتی ہے۔حضورؐ نے فرمایا کہ جب بازار کی نسبت غالب ہوگی تو مسجد کی نسبت مغلوب ہوجائے گی۔
مسجد کی نسبت یہ ہے کہ جب ان کا تعلق اللہ تعالیٰ سے پیدا ہوجائے، تو بازار میں عدل و انصاف غالب ہوگا، تو وہ بازار نعمت بن جائے گا، وہ آدمی جو مسجد میں اللہ سے ڈرتا ہے، بازار اور عدالت میں بیٹھ کر بھی اللہ سے ڈرے گا، خدا  یاد ہوگا، تو ظلم سے بچنے کی کوشش کرے گا۔ آج بازار کی نسبت یعنی مال کی نسبت غالب ہے، تو ہم لوگ بھاگ دوڑ کی حالت میں مسجد میں آتے ہیں۔ 
موجودہ حالات میں ہماری ذمہ داریاں
آج ہم دین کا مطالبہ کن لوگوں سے کرتے ہیں، جو انگریز کے نمائندے ہیں، کتنی بڑی حماقت ہے، ہم پاکستان بننے کے بعد کراچی سے کشمیر تک وہ نظام قائم نہیں کرسکے، جس کے ہم داعی ہیں، کیوں کہ ہمارے پاس ایسے افراد ہی نہیں جو اس نظام کو قائم کرسکیں، کتنے افسوس کی بات ہے۔ ساری جماعتیں اپنے اپنے دفتر سے نظام چلانے کے لئے اپنی طاقت بڑھاتی ہیں، لیکن ہم نے مساجد سے نظام چلانے کے لئے کونسے افراد تیار کئے۔ جب تک مسجد میں قرآن کے نظریہ پر جماعت تیار نہیں ہوگی، اس وقت انقلاب نہیں آسکتا۔ اصل طاقت تو نوجوان کی ہے، اور وہ کالج اور یونیورسٹی میں ہے، ان کو تو دشمن اور باطل فرقے استعمال کر رہے ہیں، غلط سیاسی نظام ان کو استعمال کر رہا ہے، ہم ان سے بے فکر ہوگئے کہ یہ تو فاسق و فاجر ہوگیا، اس کو مسجد سے بھگا دو۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ نوجوان کو اپنے قریب کرو، اس کی بات سن کر اس کو مطمئن کرو، تاکہ وہ دشمن کا آلہ کار نہ بنے، دشمن کی طاقت توڑ دو، نوجوان کو نظریہ دو، اللہ تعالیٰ ہمیں سمجھ نصیب فرمائے، اسلام میں فرقے تو قابل برداشت ہیں، لیکن فرقہ واریت قابل برداشت نہیں ہے۔ تم بتاؤ کہ جمہوریت کا دور ہے، اگر نفرت فرقوں کی بنیاد پر قائم کرلیں تو پھر ایک دوسرے کے ووٹ کیسے لے سکیں گے۔ اس لئے آج کے دور میں دین کا درست نظریہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ معاشرے میں انقلاب لاکر معاشرے میں موجود مسائل کو حل کیا جاسکے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں دین کی سمجھ اور بزرگوں کی اتباع نصیب فرمائے۔ آمین
حوالہ : مجلہ ماہنامہ رحیمیہ لاہور، اکتوبر 2009ء

متعلقہ مضامین

حضرت فاطمۃ الزہرا

خاتونِ جنت حضرت سیّدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی چار بیٹیوں میں سب سے چھوٹی بیٹی تھیں۔ آپؓ اعلانِ نبوت سے پہلے پیدا ہوئیں۔ آپؓ نے آغوشِ نبوت می…

مولانا قاضی محمد یوسف ستمبر 10, 2021

حضرت جعفر بن ابو طالب عبد ِمناف قریشی ہاشمی رضی اللہ عنہٗ

آپؓ کا نام: جعفر، کنیت: ابوعبداللہ، والد کا نام: عبدِ مناف (ابوطالب) اور والدہ کا نام: فاطمہ تھا۔ آپؓ کا شجرۂ نسب یہ ہے: جعفر بن ابو طالب بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبدِ مناف ب…

مولانا قاضی محمد یوسف ستمبر 11, 2023

حضرت حکیم بن حِزام قرشی اسدی رضی اللہ عنہٗ

حضرت حکیم بن حِزام قرشی اسدی رضی اللہ عنہٗ کی کنیت ’’ابو خالد مکی‘‘ ہے۔ فاختہ بنت زہیر آپؓ کی والدہ اور اُم المؤمنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا آپؓ کی پ…

مولانا قاضی محمد یوسف جولائی 11, 2023

رسول اللہ ﷺ سے محبت اور اس کے تقاضے

۵؍ ربیع الاوّل ۱۴۴۲ھ / 23؍ اکتوبر 2020ء کو حضرت اقدس مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری مدظلہٗ نے ادارہ رحیمیہ علومِ قرآنیہ لاہور میں خطبہ جمعہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: …

مولانا مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری اکتوبر 12, 2021