فاتحِ سندھ ؛ محمد بن قاسم ثقفیؒ  (2)

مفتی محمد اشرف عاطف
مفتی محمد اشرف عاطف
جولائی 06, 2020 - ناقابلِ فراموش
فاتحِ سندھ ؛ محمد بن قاسم ثقفیؒ  (2)

محمد بن قاسمؒ کی جانب سے سندھ پر حملے کی وجہ مظلوموں کی داد رسی تھی، نہ کہ اَملاک کا حصول اور مملکت کی توسیع پسندی تھی۔ محمد بن قاسمؒ خداداد صلاحیتوں سے مالا مال اور قابل لیڈر تھے۔ سندھ کو فتح کرنے کے بعد وہاں نظامِ عدل قائم کیا۔ مالگزاری کے وصول کرنے کے حق کو بھی مقامی باشندوں کے ذمہ ہی رہنے دیا۔ اس رعایت سے مقامی باشندے نہ صرف خوش ہوئے، بلکہ انھوں نے اس عفو و کرم اور حسن سلوک کا بہت چرچہ کیا۔ جس سے ماحول خوش گوار ہوتا گیا۔ اس طرح وہاں کے لوگوں نے نہ صرف محمد بن قاسمؒ کی اطاعت قبول کی، بلکہ اپنے ہم قوم افراد کو یہ کہہ کر اطاعت پر آمادہ کیا کہ ہماری سلطنت تباہ ہوگئی، فوجی طاقت جاتی رہی، اب ہم میں مقابلے کی ہمت نہیں۔ اگر ہم اپنے گھروں سے اور جائیداد سے محروم کردیے جاتے تو ہمارے لیے کہیں ٹھکانہ نہ ہوتا۔ ان فاتحین کی مروّت و عدل سے ہمارا سب کچھ محفوظ ہے۔ مزید یہ کہ محمد بن قاسمؒ نے دیگر مذاہب کے لوگوں کو ان کی عبادت گاہوں میں عبادت کی اجازت دی۔ سیّد طفیل احمد منگلوری لکھتے ہیں کہ: ’’محمد بن قاسم کا برہمنوں کے ساتھ حسن سلوک اور اُن کی عبادت گاہوں کی دیکھ بھال کا اس دور کے ہندو مؤرخوں نے بھی اعتراف کیا ہے۔‘‘ 
محمد بن قاسمؒ نے یہاں کے غیرمسلم باشندوں کو وہی حیثیت دی، جو صحابہ کرامؓ نے اہلِ ایران کو دی تھی، یعنی نکاح اور ذبیحہ کے علاوہ تمام امور میں ان کے ساتھ اہلِ کتاب کا سا برتاؤ کیا۔ محمد بن قاسمؒ نے تمام مفتوحہ علاقوں میں مسلمانوں کی بستیاں قائم کیں۔ مساجد تعمیر کیں۔ عوام کو اُن کے حقوق سے آشنا کیا۔ ان کے جان و مال اور عزت و آبرو کی اہمیت و حرمت کے بارے میں آگاہ کیا۔ ان اقدامات سے انسانی حقوق کے حوالے سے اسلام کا پیغام یہاں کے لوگوں تک پہنچا، جس کے نتیجے میں بڑی تعداد میں لوگ مسلمان ہوئے۔ محمد بن قاسمؒ کے فتح سندھ اور واپس عراق روانگی کے بعد تقریباً تین سو سال کا زمانہ، جس میں بنواُمیہ اور بنوعباس کے خلفا سندھ پر حکمران ہوتے رہے، انھوں نے عرب اور سندھ و ہند کے تعلقات کو علمی و تہذیبی بنیادوں پر اُستوار کیا۔ سندھ کی فتح گویا اس خطے میں سیاسی، تہذیبی اور علمی روشن خیالی کے دور کا آغاز تھا۔ 
گرفتاری و وفات: جب سلیمان بن عبدالملک خلیفہ بنے اور ادھر حجاج بن یوسف کا انتقال ہوگیا تو خلیفہ نے عراق پر یزید بن مہلب ازدی اور صالح بن عبدالرحمن تمیمی کو حکمران مقرر کیا۔ ان دونوں کو حجاج اور ان کے خاندان سے سخت عداوت تھی۔ کیوںکہ حجاج نے یزید بن مہلب کو خراسان کی امارت سے معزول کرکے قتیبہ بن مسلم باہلی کو خراسان کا امیر بنا دیا تھا۔ چناںچہ صالح بن عبدالرحمن نے سندھ کے امیر یزید بن ابوکبشہ کو لکھا کہ چوںکہ محمد بن قاسم بھی آلِ ابوعقیل میں سے ہے، اسے گرفتار کرکے عراق روانہ کردو۔ عراق پہنچے تو دیگر آلِ ابوعقیل کے ساتھ محمد بن قاسمؒ کو واسط کے قید خانے میں بند کردیا گیا اور وہ وہیں 18؍ جولائی 715ء کو ان کا انتقال ہوگیا۔ 
اس طرح وہ ایک گروہی عصبیت اور انتقامی سیاست کا شکار ہوگئے۔ اندھی عداوت میں کسی امیر کو یہ نظر نہ آیا کہ وہ اپنی داخلی سیاست و عداوت کی بھٹی میں اسلام کے کتنے بڑے فاتح کو جھونک رہے ہیں۔ اس کے بعد نہ صرف اسلامی فتوحات کا سلسلہ رُک گیا، بلکہ اکثر مفتوحہ علاقے باغی بن گئے اور مسلمانوں کو سخت پریشانی اٹھانی پڑی۔ 
 

ٹیگز
کوئی ٹیگ نہیں
مفتی محمد اشرف عاطف
مفتی محمد اشرف عاطف

مفتی محمد اشرف عاطف
جامعہ خیر المدارس ملتان سے فاضل، خلیفہ مجاز حضرت اقدس شاہ سعید احمد رائے پوریؒ  اور ماہر تعلیم ہیں۔ آپ کو حضرت اقدس مولانا شاہ عبد العزیز رائے پوریؒ سے شرفِ بیعت حاصل ہے۔ آپ نے ایک عرصہ حضرت مولانا منظور احسن دہلویؒ کے دست راست کے طور پر جامعہ ملیہ اسلامیہ فرید ٹاؤن ساہیوال میں تدریسی اور انتظامی خدمات انجام دیں۔ ساہیوال کے معروف دینی ادارے جامعہ رشیدیہ میں بطور صدر مفتی خدمات انجام دیں۔ 1974 کی تحریک تحفظ ختم نبوت میں بھی بھرپور حصہ لیا ۔ تین دہائیوں تک سعودی عرب کے معروف تعلیمی اداروں میں درس و تدریس کے فرائض سر انجام دیتے رہے۔ آج کل ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ ٹرسٹ لاہور میں استاذ الحدیث و الفقہ کے طور پر ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔ مجلہ رحیمیہ میں سلسلہ وار "تاریخ اسلام کی ناقابل فراموش شخصیات" کے تحت مسلم تاریخ سے متعلق ان کے وقیع مضامین تسلسل کے ساتھ شائع ہورہے ہیں۔