محمد بن قاسمؒ کا شمار اسلام کے نوجوان سپہ سالاروں میں ہوتا ہے، جس نے کم عمری میں ہی بہادری کے جوہر دکھائے اور بہت سے علاقوں کو فتح کیا۔ ان کی فتوحات کے سبب سندھ ’’باب الاسلام‘‘ کہلایا۔ مسلمان فاتحین جہاں کہیں بھی گئے ہیں، وہ اپنی حدودِ سلطنت کو وسیع کرنے یا وہاں کے وسائل پر قبضہ کرنے کے لیے نہیں گئے، بلکہ مفتوحہ علاقوں کے لوگوں کو اُن کے حکمران طبقوں کے ظلم و جبر سے نجات دلانے کے لیے گئے ہیں، یا وہاں پر موجود سازشی عناصر جو اسلامی حکومت کے خلاف وہاں کے حکمرانوں سے مل کر سازشوں میں مصروف تھے، ان کی سرکوبی کے لیے گئے ہیں۔
محمد بن قاسمؒ بھی انھیں فاتحین میں سے ایک ہیں۔ ان کی پیدائش ۷۵ھ / 694ء میں ہوئی۔ ان کا تعلق طائف کے قبیلے بنوثقیف سے تھا۔ ان کے والد قاسم بن یوسف اپنے قبیلے کے ممتاز افراد میں شمار ہوتے تھے۔ ان کے چچا حجاج بن یوسف عراق کے گورنر تھے تو اُن کے والد بصرہ کے حکمران تھے۔ یہ پانچ سال کے تھے کہ ان کے والد کا انتقال ہوگیا۔ ان کی ابتدائی تربیت بصرہ میں ہوئی۔ اس وقت بصرہ اہلِ علم و فن کا مرکز تھا۔ محمد بن قاسمؒ اہلِ علم کی مجالس میں شریک ہوتے اور ان سے کسب ِفیض کرتے۔ اس کے ساتھ وہ فوج میں بھرتی ہوگئے۔ غیرمعمولی ذہانت و قابلیت کی بنا پر کم عمری میں ہی فوج میںاعلیٰ عہدوں پر فائز ہوئے۔
کارہائے نمایاں: ولید بن عبدالملک کے زمانے میں ایران میں کُردوں نے بغاوت کردی۔ بغاوت کے خاتمے کے لیے محمد بن قاسمؒ کو ذمہ داری دی گئی۔ انھوں نے نہایت بہادری کے ساتھ اس بغاوت کا قلع قمع کیا۔ اس پر ان کو شیراز کا گورنر بنایا گیا۔ اس وقت ان کی عمر 17 برس تھی۔ اسی سال سندھ کی مہم پر ان کو سپہ سالار بنا کر بھیجا گیا (جس کا پسِ منظر ہم پچھلے مضمون میں واضح کرچکے ہیں)۔
اس مہم میں محمد بن قاسمؒ نے سندھ کے بیشتر علاقے فتح کیے۔ یہ فتوحات کا سلسلہ ملتان تک جا پہنچا۔ ان فتوحات کادورانیہ تقریباً چار سال پر مشتمل تھا۔ انھوں نے مفتوحہ علاقوں میں ایسے نظامِ حکومت کی بنیاد ڈالی، جس سے انصاف تک لوگوں کی رسائی آسان ہوگئی۔ مذہبی رواداری کی پالیسی اختیار کی۔ ان کے حسنِ سلوک، اعلیٰ اَخلاق اور حسنِ تدبیر سے سندھ کے عوام ان کے گرویدہ ہوگئے۔
’’فتوح البلدان‘‘ کے مصنف لکھتے ہیں کہ: ’’محمد بن قاسمؒ انتہائی خلیق و ملنسار، باہمت و بامروت، ہر ایک سے محبت سے پیش آتے۔ عام زندگی میں لوگوں کے غم بانٹتے۔ انھی خوبیوں کی بنا پر سندھ کے عوام ان کے گرویدہ ہوگئے۔ جب وہ سندھ سے رخصت ہونے لگے تو ان کے جانے پر اہلِ علاقہ نے افسوس کا اظہار کیا۔ یہاں تک کہ جب ان کی وفات کی خبر ملی تو شہر کیرج کے ہندوؤں اور بدھوؤں نے اپنے شہر میں ان کا ایک مجسمہ بنا کر اپنی عقیدت کا اظہار کیا۔‘‘
ٹیگز
مفتی محمد اشرف عاطف
مفتی محمد اشرف عاطف
جامعہ خیر المدارس ملتان سے فاضل، خلیفہ مجاز حضرت اقدس شاہ سعید احمد رائے پوریؒ اور ماہر تعلیم ہیں۔ آپ کو حضرت اقدس مولانا شاہ عبد العزیز رائے پوریؒ سے شرفِ بیعت حاصل ہے۔ آپ نے ایک عرصہ حضرت مولانا منظور احسن دہلویؒ کے دست راست کے طور پر جامعہ ملیہ اسلامیہ فرید ٹاؤن ساہیوال میں تدریسی اور انتظامی خدمات انجام دیں۔ ساہیوال کے معروف دینی ادارے جامعہ رشیدیہ میں بطور صدر مفتی خدمات انجام دیں۔ 1974 کی تحریک تحفظ ختم نبوت میں بھی بھرپور حصہ لیا ۔ تین دہائیوں تک سعودی عرب کے معروف تعلیمی اداروں میں درس و تدریس کے فرائض سر انجام دیتے رہے۔ آج کل ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ ٹرسٹ لاہور میں استاذ الحدیث و الفقہ کے طور پر ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔ مجلہ رحیمیہ میں سلسلہ وار "تاریخ اسلام کی ناقابل فراموش شخصیات" کے تحت مسلم تاریخ سے متعلق ان کے وقیع مضامین تسلسل کے ساتھ شائع ہورہے ہیں۔