پاکستان کی آبادی 22 کروڑ نفوس کے لگ بھگ ہے، جو اسے آبادی کی بنیاد پردنیا کا ساتواں بڑا ملک بنادیتی ہے۔ آج کے دور میںمعیشتوں کے استحکام کی بنیادیہ ہے کہ اس معیشت کی مقامی کھپت کیسی ہے؟ اس بنیاد پر پیداوار میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس پیداوار کی کھپت کو ہر لحظہ بڑھانے کے لیے نت نئی مصنوعات متعارف کروائی جاتی ہیں۔ میڈیا کی طاقت سے انھیں انسانی زندگیوں کا لازمی حصہ بنا دیا جاتا ہے۔ کسی جنس (commodity) کی کامیاب پذیرائی پر اسے بیرونِ ملک بھی متعارف کروایا جاتا ہے۔ اس حوالے سے برآمدات میں اضافے کی دوڑکا آغاز ہوجاتا ہے۔ یہ وہی معاشی ماڈل ہے، جس کی پیروی میں یورپی طاقتیں عالمی سامراج کی حیثیت اختیار کر گئیں۔ اُن طاقتوں نے اپنی اپنی اجارہ داری کو مضبوط کرنے کے لیے منڈیوں پر قبضہ کیا۔ بڑی بڑی فوجیں بنائیں۔ اس مقصد کے لیے قرضوں کا سہارا لیا گیا۔ ان خساروں کو پورا کرنے کے لیے ایشیا اور افریقا کا رُخ کیا گیا۔ لیکن اکیسویں صدی میں چین اور بھارت جیسی تازہ دم معاشی قوتوں نے مذکورہ ماڈل میں کئی جوہری تبدیلیاں کردی ہیں، جس میں اوّل درجے پر اپنی مقامی آبادیوں کی قوتِ خرید میں بہ تدریج اضافہ اور اس سے پیدا ہونے والی طلب کو مقامی پیداوار سے پورا کیا جائے۔ اس عمل میں ان ملکوں کی آبادی ہی ان کا سب سے بڑا سرمایہ بن چکی ہیں۔ چناںچہ متنوع اشیائے صَرف اور ان میں پیچیدہ ربط دراصل معاشی سرگرمیوں کو روز افزوں ترقی دیتا جارہا ہے۔ دنیا میں متعارف ہونے والی اجناس ان معیشتوں کا رخ کرتی ہیں، جہاں ان کی کھپت مؤثر انداز میں ہو سکے۔
ایک بڑی آبادی کا ملک ہونے کی وجہ سے پاکستان بھی اس عالمی رسد کے نیٹ ورک کا حصہ ہے، لیکن بد قسمتی سے یہ ابھی تک پرانے معاشی ماڈل پر ہی چلنے کی کوشش کرتا رہا ہے۔ ہمارا دہائیوں پر محیط تجارتی خسارہ اور بے پناہ قرضے اس کا ثبوت ہیں، جس میں عموماً اضافہ ہی دیکھا گیاہے۔ قرضے اتارنے کے لیے پاکستانی عوام ہی ہے۔ ہمیں یورپی قوتوں کی طرح نوآبادیات کی سہولت میسر نہیں۔ معاشی بقا کے لیے حکومت نے تدریجاً اصلاحات کا عمل جاری رکھا ہوا ہے، جیسے کپڑے اورتعمیراتی شعبوں سے متعلق صنعتیں اب کروٹ لیتی ہوئی محسوس ہورہی ہیں۔ دوسری طرف الیکٹرک گاڑیوں اور موبائل فون کی مقامی پیداوار میں اضافے کے حوالے سے حال ہی میں ٹیکس میں مراعات کا پیکج دیا گیا ہے، جس پر مکمل عمل درآمد کی صورت میں پاکستان کو قریباً دو ارب ڈالر سالانہ کا فائدہ ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ تیل کی درآمد میں بھی بہ تدریج کمی آئے گی۔ لیکن یہ سب کاوشیں نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوسکتیں، جب تک پاکستان پر قرضوں کا بوجھ بڑھتا رہے گا۔ کیوںکہ قرضوں پر سود کی ادائیگی ملکی معیشت کو پھر سے صفر پر لے جاتی ہے۔ ہمارے اوپر اندرونی اور بیرونی قرضوں کا جال سالانہ بنیادوں پر ہماری آمدن کا 40 فی صد ہڑپ کرجاتا ہے۔ یہ ایک ایسا گھن چکر ہے کہ ساری محنت پر پانی پھر جاتا ہے۔ یہ کام مشکل ہے، لیکن اپنے خطے کی اُبھرتی معاشی قوتوں کے ساتھ شانہ بہ شانہ چلنے کے لیے ان قرضوں کے بوجھ میں تدریجاً کمی ناگزیر ہے۔
ٹیگز
محمد کاشف شریف
محمد کاشف شریف 1999ء میں انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد سے MBA کرنے کے بعد اڑھائی سال تک محمد علی جناح یونیورسٹی میں تدریسی خدمات سرانجام دیتے رہے. اس کے بعد انہوں نے 18 سال DHA اسلام آباد میں پیشہ ورانہ ذمہ داریاں ادا کیں۔ اس وقت وہ متعدد تعمیراتی اور ترقیاتی کام کرنے والی کمپنیوں کے ساتھ بطور ایڈوائیزر برائے فائنانس و ٹیکسیشن خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ نظام معیشت، معاشی منصوبہ بندی اور تعمیراتی شعبے میں ماہر ہیں۔ ایک عرصہ سے حضرت مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری کی سرپرستی میں ادارہ رحیمیہ علومِ قرآنیہ لاہور کے تعلیمی و تدریسی پروجیکٹ میں اعزازی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ مجلہ رحیمیہ لاہور میں معیشت کے موضوع پر مستقل مضامین لکھ رہے ہیں۔
متعلقہ مضامین
معاشی بقا میں آفت زدہ پاکستانیوں کا کردار
اگست 2022ء میں سب مشکل میں تھے۔ ڈالر اور مہنگائی بے لگام تھے۔ آئی ایم ایف سرکار نالاں تھی کہ پاکستان وعدہ خلاف ہے۔ اس تناظر میں سب سانس روک کر بیٹھے تھے کہ کہیں 1.2 ارب …
اور آئی ایم ایف پھر مان گیا
آئی ایم ایف کی عالمی حیثیت ایک بینک کی سی ہے، جس کا کام دیگر ممالک کو اس لیے قرض دینا ہے، تاکہ لین دین کا عالمی نظام اضمحلال کا شکار نہ ہونے پائے اور اس تناظر میں مقامی …
1997ء ایشیائی کرنسی بحران میں پاکستان کے لیے سبق
1997ء میں ایشیائی کرنسی بحران میں مشرقِ بعید کے تمام ممالک خاص طور پر‘ اور دُنیا کے دیگر ممالک عام طور پر ان پالیسیوں کی وجہ سے متأثر ہوئے تھے، جنھیں آج کا پاکستان ب…
قرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی
پاکستان کو موجودہ مالی سال کے آمدہ چار ماہ میں قرضوں کی ادائیگی اور اپنی ضروریات کے لیے 10 ارب ڈالر کا اضافی قرض درکار ہے اور آمدہ مالی سال کے دوران انھی مدات میں 20 سے …