پاکستان پر اندرونی و بیرونی قرضوں کا حجم 410 کھرب روپے کے لگ بھگ ہوچکا ہے۔ ایک سال کے دوران اس میں اوسطاً 30 کھرب روپوں کا اضافہ ہو ہی جاتا ہے۔ اس کی بڑی وجہ ہمارے اخراجات میں مستقل اضافہ ہے۔ مالی سال 2021-22ء کے نصفِ اوّل میں آمدن و اِخراجات کا یہ خسارہ بڑھ کر 1800 ارب روپے تک جا پہنچا ہے۔ حال آںکہ اسی مدت کے دوران ٹیکس وصولی نے گزشتہ تمام ریکارڈ توڑ ڈالے اور 32.5 فی صد کے اضافے سے 29 کھرب کی وصولی ریکارڈ کی گئی، لیکن پھر بھی خسارہ ریکارڈ کیا گیا۔ اس خسارے کی بڑی وجہ اندرونی اور بیرونی قرضوں کی اَقساط اور ان پر سود کی ادائیگی، عالمی منڈی میں بڑھتی ہوئی تیل کی قیمتیں، خوردنی اشیا کی درآمدات میں اضافہ اور کرونا ویکسین پر 1.4 ارب ڈالر کی ادائیگیاں ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ ہماری مقتدرہ بھی یہ جانتی ہے کہ ڈالر ہی میں قوت ہے، اس لیے ایسا قدم اُٹھانے سے یہ گریزاں رہتی ہے، جس میں ڈالر کی ریل پیل نسبتاً کم ہو۔
چناں چہ بیرونی قرض لینے سے ہم کبھی نہیں چوکتے۔ پاکستان میں ڈالر چار طریقوں سے آتے ہیں: ایک: برآمدات سے، دوسرا: بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں سے، تیسرا: سرمایہ کاری سے، چوتھا: قرض کی صورت میں۔ ہمیں سالانہ بنیادوں پر تین طریقوں سے ڈالر ادا کرنے ہوتے ہیں: ایک: قرض اور اس پر سود کی صورت میں، دوسرا: درآمدات کی ادائیگیوں کی مد میں، تیسرا: سرمایہ کاری پراصل زر اور منافع کی صورت میں۔ ہوتا یوں ہے کہ مندرجہ بالا مَدّات میں ڈالر کی آمدن ہمیشہ ادائیگیوں سے کم ہی رہتی ہے اور اس خلیج کو پاٹنے کے لیے بیرونی دنیا سے ڈالر میں قرض لیا جاتا ہے، لیکن یہ ڈالر لے کر کسے ادا کیے جاتے ہیں؟ واپس بیرونی سرمایہ کار کو، کسی عالمی مالیاتی ادارے کو یا طاقت ور درآمد کنندہ کو جو اپنی عیاشی کے لیے موبائل فون گاڑی اور تعیش کا سامان خریدنا چاہتا ہے۔ یہ طاقت ور لوگ کون ہیں؟ یہ ہمارے حکمران اور سول اور فوجی بیوروکریٹ ہیں۔ ان لوگوں کے لیے پوری قوم سالانہ بنیاد پر لگ بھگ 30 سے 40 کھرب کی مقروض ہوجاتی ہے۔
درآمدات کے اعداد و شمار کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ مالی سال 2021-22ء کے نصفِ اوّل کے دوران گاڑیوں پر 1.9 ارب ڈالر، موبائل فونز پر ایک ارب ڈالر، گندم، چینی، دالوں اور چائے پر مجموعی طور پر ایک ارب ڈالر، اور خوردنی تیل پر 1.6 ارب ڈالر خرچ کیے گئے ہیں۔ یہ برآمدات پانچ سے چھ ارب ڈالر کی بنتی ہیں۔ ان پر قابو پالیا جائے اور انھیں پاکستان میں ہی تیار کرلیا جائے تو نہ صرف قیمتی زرِ مبادلہ بچے گا، بلکہ ہماری برآمدات میں اضافے کی وجہ بھی بنے گا۔ مذکورہ شعبوں کو پاکستان میں بہ آسانی فروغ دیا جاسکتا ہے۔ کیوں کہ ان سے متعلق مقامی طلب بھی ہے اور پیداوار کا بنیادی ڈھانچہ بھی، لیکن حکومت کا حالیہ اعلان کہ پاکستان کی معیشت اب 295 ارب ڈالر سے بڑھ کر 345 ارب ڈالر تک جا پہنچی ہے، مزید قرض لینے کی راہ ہموار کرنے کا پیش خیمہ ہے۔ گویا ہماری مقتدرہ کا موڈ قرضوں پر زندہ رہنے کا ہے۔ کیوں کہ ڈالر سے محبت ہی اصل ایمان ہے؟!
ٹیگز
محمد کاشف شریف
محمد کاشف شریف 1999ء میں انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد سے MBA کرنے کے بعد اڑھائی سال تک محمد علی جناح یونیورسٹی میں تدریسی خدمات سرانجام دیتے رہے. اس کے بعد انہوں نے 18 سال DHA اسلام آباد میں پیشہ ورانہ ذمہ داریاں ادا کیں۔ اس وقت وہ متعدد تعمیراتی اور ترقیاتی کام کرنے والی کمپنیوں کے ساتھ بطور ایڈوائیزر برائے فائنانس و ٹیکسیشن خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ نظام معیشت، معاشی منصوبہ بندی اور تعمیراتی شعبے میں ماہر ہیں۔ ایک عرصہ سے حضرت مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری کی سرپرستی میں ادارہ رحیمیہ علومِ قرآنیہ لاہور کے تعلیمی و تدریسی پروجیکٹ میں اعزازی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ مجلہ رحیمیہ لاہور میں معیشت کے موضوع پر مستقل مضامین لکھ رہے ہیں۔
متعلقہ مضامین
معاشی بقا میں آفت زدہ پاکستانیوں کا کردار
اگست 2022ء میں سب مشکل میں تھے۔ ڈالر اور مہنگائی بے لگام تھے۔ آئی ایم ایف سرکار نالاں تھی کہ پاکستان وعدہ خلاف ہے۔ اس تناظر میں سب سانس روک کر بیٹھے تھے کہ کہیں 1.2 ارب …
گھر بنانے کا خواب
پاکستان کی آبادی ہر سال چالیس لاکھ کی رفتار سے بڑھ رہی ہے۔ برصغیر کے تناظر میں یہ افغانستان کے بعد سب سے زیادہ شرح نمو ہے ۔ایسے ہی شہروں کی طرف نقل مکانی کی سب سے زیادہ …
تبدیلیٔ نظام؛ وقت کی سب سے بڑی ضرورت
آج کل ہماری معیشت جن تجربات سے گزر رہی ہے، اسے دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے فیصلہ ساز وں نے اپنے ہی سابقہ ادوار سے کچھ نہیں سیکھا۔ ڈالر کی قیمت کو مصنوعی انداز می…
عالمی مالیاتی بحران ابھی ٹلا نہیں
ڈچ ایسٹ انڈیا کمپنی، برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی نے جدید مالیاتی نظام کی بنیاد رکھی تھی۔ مشترکہ سرمائے کی طاقت سے ان کمپنیوں نے برصغیر، مشرقِ بعید اور چین میں سترہویں اور اٹھار…