

پاکستانی نظام کی خود مختاری سے محرومی؛ ایک نوشتۂ دیوار
کسی بھی قوم کی آزادی صرف جغرافیائی حدود تک محدود نہیں ہوتی، بلکہ اصل آزادی فیصلہ سازی کے عمل میں نظر آنی چاہیے۔ ایک حقیقی خودمختار قوم وہی کہلائے گی جس کے سیاسی، معاشی اورداخلہ و خارجہ اُمورکے فیصلے داخلی ترجیحات اور عوامی مفادات کی بنیاد پر کیے جائیں ، نہ کہ بیرونی دباؤ اور بین الاقوامی قوتوں کی خوشنودی اور ایما پر۔
پاکستان میں حکومتوں کی تبدیلیاں ‘ اس ملک کے قیام ہی سے بیرونی قوتوں کی منشا اور مفادات کے زیرِاثر رہی ہیں ۔ ماضی قریب میں پاکستان کے اندر رجیم چینج آپریشن‘ اس کی تازہ ترین مثال ہے، جس نے پاکستانی سیاست میں بیرونی مداخلت کے بیانیے کو أظہر مِن الشّمس کردیا ہے۔ اس مداخلت نے پاکستانی سیاست میں بیرونی مداخلت پر پڑے پردوں کو چاک کردیا ہے۔ اب سوشل میڈیا کی بدولت پاکستانی سیاسی تاریخ کے ان مستور گوشوں سے بچہ بچہ واقف ہوچکا ہے۔
اب جب کہ نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد یہ سوال مزید شدت اختیار کر گیا ہے کہ آیا پاکستان کا سیاسی نظام واقعی خود مختار ہے، یا محض عالمی طاقتوں کے اشاروں پر چلنے والا ایک بے اختیار ڈھانچہ۔پاکستان میں بیرونی طاقتوں کے ذریعے حکومتوں کی تبدیلی کوئی نئی بات نہیں ۔ ڈھونڈنے سے پاکستانی تاریخ میں کئی ایسی مثالیں مل جائیں گی، جہاں عالمی طاقتوں کے مفادات‘ پاکستانی سیاست پر اثر انداز ہوتے نظر آئیں گے۔پاکستان کی سیاسی تاریخ کے بیش تر سیاسی بحران انھی بیرونی مداخلتوں کے شاخسانے رہے ہیں ۔ ان مواقع پر ہمیشہ یہ تاثر مضبوط ہوا کہ پاکستان میں فیصلہ کن قوت‘ عوامی رائے سے زیادہ عالمی مفادات اور ان کے تابع وہ اندرونی مقتدر حلقے ہیں جو بیرونی قوتوں کے اشارۂ اَبرُو کے منتظر رہتے ہیں ۔ اب اس طرح کے گٹھ جوڑ جمہور عوام کی نظروں میں کھٹکنے لگے ہیں اور وہ اسے ناپسند بھی کرتے ہیں ، بلکہ پاکستانی تاریخ کے لیڈروں کو ملنے والی عوامی مقبولیت کے پیچھے بیرونی مداخلت کے خلاف عوامی ردِ عمل ہمیشہ ایک اہم عامل رہا ہے۔
2018ء اور 2022ء میں پی ٹی آئی کی حکومت کے قیام اور اُس کی برطرفی کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جاسکتا ہے اوراس وقت کے وزرائے اعظم نے کھل کر دعویٰ کیا تھا کہ ان کی حکومت کو امریکی مداخلت کے زیرِ اثر مقتدر طبقوں کے اثر و رُسوخ سے ہٹایا گیا ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں یہ کوئی انوکھے واقعات نہ تھے اوربعد کے حالات نے ان کے ان دعوؤں کی تصدیق بھی کردی تھی، جس سے عوامی سطح پر یہ احساس مزید تقویت پکڑ گیا کہ پاکستان کی سیاست میں اصل فیصلے کہیں اَور ہوتے ہیں ۔
اب سابقہ واقعات کے برعکس امریکا میں انتخابات کے نتیجے میں ڈونلڈ ٹرمپ واضح اکثریت سے صدر منتخب ہوکر اپنی حکومت بناچکے ہیں تو ادھر پاکستانی سیاست کے حکومتی اور اپوزیشن حلقوں میں ایک نئی دوڑ پیدا ہو رہی ہے، ایک طرف عمران خان کے حامیوں کی توقعات‘ یقین کا درجہ اختیار کرتی جا رہی ہیں کہ ٹرمپ اقتدار میں آچکے ہیں ، اب وہ پاکستان کی مقتدر قوتوں پر دباؤ ڈال کر ان کی رہائی یقینی بنائیں گے۔ دوسری طرف حکومت کے اپنے نمائندے واشنگٹن میں حمایت حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔
اگر یہ حالات درست ہیں تو اس کا مطلب یہی نکلتا ہے کہ پاکستانی سیاست اپنی خود مختاری سے تہی دست‘ بین الاقوامی قوتوں کے رحم و کرم پر رہے گی۔بین الاقوامی تبدیلیاں صحرا میں پڑے خس و خا شاک کی طرح پاکستان کی پوزیشن کو الٹ پلٹ کرتی رہیں گی اور یہاں اقتدار کے اصل فیصلے بیرونی ایوانوں میں ہی ہوتے رہیں گے۔ کسی قوم کی اس سے زیادہ کیا ہتک ہوسکتی ہے کہ ان کے فیصلے کسی اَور سر زمین سے ہوتے ہوں اور مقامی سیٹ اپ کے پاس سرِتسلیم‘ خم کیے بغیر کوئی چارہ بھی نہ ہو۔
یہ صورتِ حال نہ صرف پاکستان کے سیاسی نظام پر سوالیہ نشان ہے، بلکہ ہمارے قومی تشخص کے لیے بھی ایک سنگین چیلنج ہے۔ اگر کسی قوم کے اندرونی معاملات کا انحصار بیرونی عناصر کی مرضی و منشا پر ہو تو ایسی ریاست‘ عملی طور پر نہ صرف خودمختار نہیں ہوتی، بلکہ وہ بین الاقوامی بساط پر محض ایک مہرہ بن کر رہ جاتی ہے۔ بیرونی مداخلتوں کا بوجھ اُٹھانے والے نظام کے کندھے اتنے کمزور ہوجاتے ہیں کہ اس میں بسنے والی قوم میں نہ صرف کبھی خوداعتمادی پیدا نہیں ہوتی بلکہ وہ قومی وقار سے بھی محروم رہتی ہے۔ جب بیرونی طاقتیں حکومتوں کی تشکیل و تحلیل میں اپنا حصہ وصول کرتی ہیں تو ایسے معاشروں میں قومی جمہوری ادارے کبھی بھی مضبوط نہیں ہو پاتے اور عوام کی رائے ثانوی حیثیت سے بھی نیچے گرتی چلی جاتی ہے، جس سے ملک میں سیاسی عدمِ استحکام جنم لیتا ہے اور سیاسی استحکام کے بغیر کوئی بھی ملک معاشی طور پر ترقی نہیں کر سکتا۔
جب حکومتیں بیرونی اثر و رسوخ کے تحت تبدیل ہونے لگیں تو پالیسیوں میں تسلسل نہیں رہتا، جس سے معیشت سب سے زیادہ متاثر ہوتی ہے۔ اگر کسی ملک کے داخلی فیصلوں میں بیرونی دباؤ جڑ پکڑ جائے تو اس کی خارجہ پالیسی بھی آزاد نہیں رہتی اور وہ محض عالمی طاقتوں کے سیاسی، معاشی اور تزویراتی مفادات کا آلۂ کار بن کر رہ جاتا ہے۔ پاکستان کو اب یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ آیا وہ ایک خودمختار قوم کے طور پر آگے بڑھنا چاہتا ہے، یا ہمیشہ عالمی طاقتوں کے مہرے کے طور پر استعمال ہوتا رہے گا۔
اگر رجیم چینج آپریشنز کی طرح اب کے بھی بین الاقوامی کروٹ سے پاکستان متأثر ہوتا ہے اور عالمی استعماری طاقتوں کی سیاسی خواہشات پاکستانی سیاست میں فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہیں تو یہ ہماری ریاست اور سیاست کے لیے کوئی نیک شگون نہ ہوگا، بلکہ تبدیلی کا یہ بھونڈا طریقۂ کار‘ جمہوریت کے ساتھ ساتھ قومی خودمختاری کے لیے بھی ایک دائمی خطرہ ثابت ہوگا۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ پر اگر غیر جانب دارانہ نظر ڈالی جائے تو ہمیں یہ تلخ حقیقت تسلیم کرنا پڑے گی کہ ہمارے اجتماعی قومی فیصلوں پر بیرونی مداخلت کی گہری پرچھائیاں موجود ہیں ، جن کا انکار اب ممکن نہیں ۔
پاکستان میں انتخابات کے نتائج سے لے کرحکومتوں کی تشکیل و تحلیل اور فیصلہ سازی کے اہم مراحل میں غیر ملکی اثر و رسوخ ایک ناقابلِ انکار حقیقت کا روپ دھار چکا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام میں قومی آزادی اور حریت کے حوالے سے ایسی شعوری سیاسی بیداری پیدا کی جائے جس کے باعث وہ اپنے ملک کی سیاسی تاریخ پر موجود پرچھائیں ختم کرکے اپنی قومی خودی، سیاسی وقار اور جمہوری آزادی کو محض وقتی مفادات کے لیے قربان کرنے کے بجائے ایک خودمختار، مضبوط اور آزاد سیاسی نظام تشکیل دینے کی جدوجہد کو یقینی بناسکے، جو کسی بیرونی طاقت کے دباؤ کے بغیر عوامی رائے کے مطابق فیصلے کر سکے۔ یہی ایک خوددار اور آزاد قوم کی پہچان ہے۔

مولانا محمد عباس شاد
مولانا محمد عباس شاد پنجاب یونیورسٹی لاہور اور جامعہ اشرفیہ کے فاضل اور ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ سے وابستہ ہیں۔ ماہنامہ "رحیمیہ" اور سہ ماہی "شعور و آگہی" (لاہور) کے مدیر اور دارالشعور پبلشرز لاہور کے چیئرپرسن ہیں۔ ماہنامہ الصدق کے مدیر کے طور پر بھی فرائض انجام دیتے رہے۔
قومی اور سماجی مسائل کے علاوہ قومی اور بین الاقوامی سطح کے حالاتِ حاضرہ ان کی خصوصی دلچسپی کا میدان ہے۔ ماہ رحیمیہ میں گزشتہ کئی سالوں سے "شذرات" کے نام سے اداریہ لکھ رہے ہیں ۔
متعلقہ مضامین
پاکستان کی داغ داغ سیاست
77 سال قبل جب پاکستان کی ریاست وجود میں آئی تو تقسیم کی لکیر کے اس پار سے جوق در جوق لوگ اپنے خوابوں کی تعبیر ڈھونڈنے یہاں پہنچے، لیکن گزشتہ ستتر سالہ حوادث و واقعات نے …
تبدیلیٔ نظام؛ وقت کی سب سے بڑی ضرورت
آج کل ہماری معیشت جن تجربات سے گزر رہی ہے، اسے دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے فیصلہ ساز وں نے اپنے ہی سابقہ ادوار سے کچھ نہیں سیکھا۔ ڈالر کی قیمت کو مصنوعی انداز می…
امریکی اِنخلا اور افغانستان کی تعمیرِنو
اقوامِ عالَم میں ایشیا ایک خاص اہمیت کا حامل ہے۔ وسائل اور رقبے کے اعتبار سے تو سب سے بڑا ہے ہی، لیکن جغرافیائی محلِ وقوع کے اعتبار سے بھی قوموں کی توجہ کا مرکز رہا ہے۔ گرم…
ایشیائی طاقتیں اور مستقبل کا افغانستان
پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کے بہ قول ’’مغلوں کے دور میں ہندوستان پوری دنیا کی مجموعی پیدا وار کا 24 فی صد حصہ اکیلا پیدا کرتا تھا، لیکن برطانیہ نے اسے لوٹ …