حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ ابھی بستر پر لیٹے ہی تھے کہ ان کا بیٹا عبدالملک جس کی عمر ابھی سترہ سال کی تھی، کمرے میں داخل ہوا۔ اس نے کہا: امیرالمؤمنین! آپ کیا کرنا چاہتے ہیں؟ فرمایا: بیٹا! میں تھوڑی دیر آرام کرنا چاہتا ہوں۔ بہت تھک گیا ہوں۔ بیٹے نے کہا: امیرالمؤمنین! کیا آپ مظلوم لوگوں کی فریاد سنے بغیر ہی سو جانا چاہتے ہیں؟ مظلوموں کو بدلہ کون دلوائے گا؟ فرمایا: بیٹا! چوںکہ میں تمھارے چچا خلیفہ سلیمان کی وفات کی وجہ سے گزشتہ ساری رات جاگتا رہا، تھکاوٹ کی وجہ سے میرے جسم میں طاقت نہیں۔ انشاء اللہ تھوڑا آرام کرنے کے بعد ظہر کی نماز لوگوں کے ساتھ پڑھوں گا اور پھر یقینا مظلوموں کی فریاد رسی ہوگی اور ہر ایک کو اس کا حق دیا جائے گا۔ کوئی محروم نہیں رہے گا۔
بیٹے نے کہا: امیرالمؤمنین! اس کی کون ضمانت دیتا ہے کہ آپ ظہر تک زندہ رہیں گے؟ بیٹے کی یہ بات سن کر حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ تڑپ اُٹھے۔ آنکھوں میں نیند جاتی رہی۔ تھکے ہوئے جسم میں دوبارہ توانائی آگئی اور ایک دم اُٹھ کر بیٹھ گئے۔ فرمایا: بیٹا ذرا میرے قریب آؤ۔ بیٹا قریب ہوا تو اسے گلے لگا کر پیشانی کو بوسہ دیا اور فرمایا: اللہ کا شکر ہے، جس نے مجھے ایسا نیک فرزند عطا کیا، جو دینی معاملے میں میری مدد کرتا ہے۔ پھر آپؒ اٹھے۔ حکم دیا کہ اعلان کردیا جائے کہ جس پر کوئی ظلم ہوا ہے، وہ اپنا مقدمہ خلیفہ کے سامنے آکر پیش کرے۔
حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے بارہ بیٹے اور تین بیٹیاں تھیں۔ سب میں عبدالملک ایک چمکتے ستارے کی طرح تھے۔ یوں تو وہ نوجوان تھے، لیکن عقل و خرد میں منفرد تھے۔ ان میں حضرت عمرفاروقؓ کے خاندان کے اوصاف پائے جاتے تھے۔ خاص طور پر تقویٰ، پاکیزگی اور خشیت ِالٰہی میں ان پر حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کا مزاج غالب تھا۔
اس نوجوان نے اکابر علما و محدثین سے قرآن و حدیث کا علم حاصل کیا اور اس میں اتنی مہارت پیدا کی کہ وہ شام کے علما و فقہا کی مجلس میں بیٹھ کر ان سے مختلف علمی موضوعات پر بڑی مؤثر گفتگو کرتے۔ اس نوجوان کی گفتگو سن کر اہل علم ان کی ذہانت اور خوش بیانی کی تعریف کرتے۔ خاندانِ فاروقی اُموی کے اس عظیم سعادت مند بیٹے نے دمشق کے پُررونق بازار میں لہلہاتے ہوئے، ترو تازہ باغات اور بل کھاتی رواں دواں ندیوں کے دل فریب مناظر چھوڑ کر پہاڑی سرحدی علاقے کو اپنی رہائش کے لیے منتخب کیا، تاکہ ہر دم ہر گھڑی حالت ِجہاد میں رہنے کی سعادتیں حاصل ہوں اور تکبر و غرور جیسی مہلک بیماری سے حفاظت رہے۔ ایک دفعہ کسی صاحب نے پوچھا کہ تمھارے معاشی اخراجات کیسے پورے ہوتے ہیں؟ تو انھوں نے کہا کہ میں نے یہاں آتے ہی زمین کا ایک ٹکڑا خریدا تھا۔ اس زمین سے مجھے اتنا کچھ مل جاتا ہے، جو میرے گزارے کے لیے کافی ہے اور مجھے بے نیاز کردیتا ہے۔
یہ مقولہ بالکل سچ ہے کہ الوَلَدُ سِرٌّ لأبیہِ (بیٹا اپنے باپ کا راز ہوتا ہے)۔
ٹیگز
مفتی محمد اشرف عاطف
مفتی محمد اشرف عاطف
جامعہ خیر المدارس ملتان سے فاضل، خلیفہ مجاز حضرت اقدس شاہ سعید احمد رائے پوریؒ اور ماہر تعلیم ہیں۔ آپ کو حضرت اقدس مولانا شاہ عبد العزیز رائے پوریؒ سے شرفِ بیعت حاصل ہے۔ آپ نے ایک عرصہ حضرت مولانا منظور احسن دہلویؒ کے دست راست کے طور پر جامعہ ملیہ اسلامیہ فرید ٹاؤن ساہیوال میں تدریسی اور انتظامی خدمات انجام دیں۔ ساہیوال کے معروف دینی ادارے جامعہ رشیدیہ میں بطور صدر مفتی خدمات انجام دیں۔ 1974 کی تحریک تحفظ ختم نبوت میں بھی بھرپور حصہ لیا ۔ تین دہائیوں تک سعودی عرب کے معروف تعلیمی اداروں میں درس و تدریس کے فرائض سر انجام دیتے رہے۔ آج کل ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ ٹرسٹ لاہور میں استاذ الحدیث و الفقہ کے طور پر ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔ مجلہ رحیمیہ میں سلسلہ وار "تاریخ اسلام کی ناقابل فراموش شخصیات" کے تحت مسلم تاریخ سے متعلق ان کے وقیع مضامین تسلسل کے ساتھ شائع ہورہے ہیں۔