انسانی تاریخ میں معاشروں کو تبدیل کرنے والا سب سے مؤثر عامل‘ جس نے اقوام و ممالک کی جغرافیائی اور نسلی عصبیتوں کو ختم کر کے نوعِ انسانی کے ایک ہی اعصابی نظام میں ڈھالا، وہ دین اور مذہب ہے۔ دین کا تعلق نبوت سے ہے، جس کی نمائندہ شخصیت نبی ہوتے ہیں۔ گویا نبوت کے بغیر نہ تو اَخلاقی اقدار کو پہچانا جا سکتا ہے اور نہ ہی اقتصادیات، سماجیات اور سیاسیات کی زلفِ گرہ گیر کو کھولا جا سکتا ہے۔ نبوی تعلیمات کے بغیر یہ سب اُمور کامل و احسن طریقے سے واضح نہیں ہو پائیں گے۔
نبوت و الہام کے مسائل اس انداز کے ہیں کہ ان کا تعلق اللہ کی خاص بخشش و عنایت سے ہے۔ علامہ ابنِ خلدونؒ کہتے ہیں کہ نبوت کا تعلق انسانی فکر سے ہے، بلکہ انسانی فکر کی ترقی کی ایک کڑی ہے، بلکہ یوں کہیے کہ انسانیت کا اُفقِ اعلیٰ ہے۔ اس عالمِ عناصر میں ایک طرح کی ترتیب ہے اور ہر طبقہ دوسرے سے متصل ہے۔ نظر ڈالیں کہ اس میں کس قدر استواری ہے! ایک طبقہ دوسرے طبقے کے ساتھ مربوط ہے۔ اس ارتقا و تغیر و تبدل کو یوں سمجھئے کہ معدنیات کا ارتقا وآ خری نقطہ‘ نباتات کے ابتدائی اُفق کے ساتھ متصل ہے، نباتات کا آخری اُفق حیوانات کی اوّلیں سرحدوں سے متصل ہے اور ہر نوع کا اُفقِ آخر اگلی نوع کے اُفقِ اوّل میں تحلیل ہونے کی پوری استعداد رکھتا ہے۔ ارتقا و تغیر کا یہ قانون تقاضا کرتا ہے کہ یہ سلسلہ یہیں نہ رُکے، بلکہ آگے بڑھے۔ اس لیے یہاں ایک اَور عالَم ماننا پڑے گا، جس میں ادراکِ محض اور تعقل ہے اور یہ عالمِ ملائکہ ہے۔ اس کا ایک پہلو نفسِ انسانی سے ملا ہوا ہے اور ایک اس سے جدا ہے۔ پھر نفسِ بشری کبھی کبھی ایک ہی جست میں بشریت سے الگ ہو کر ملائکہ کی صف میں پہنچ جاتا ہے، لیکن یہ اسی وقت ہو سکتا ہے جب کہ نفسِ بشری ایسا ہو کہ اس میں اتصال کی دونوں جہتیں پائی جائیں: ایک جہت کا تعلق جسم کے ساتھ ہو اور دوسری جہت کا تعلق اُفقِ ملائکہ سے ہو۔ یہ فرشتوں کے ساتھ اتصال اور بشریت کا غائب ہونا ہی وہ عنایتِ الٰہی ہے جسے نبوت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
علامہ ابنِ خلدونؒ نے جب گرد و پیش میں ایسی اقوام کا مشاہدہ کیا جو لا مذہبیت کی زندگی گزار رہے ہیں، لیکن وہ ایک وسیع ملک اور خاص نظام رکھتے ہیں، جب کہ اس کے برعکس وہ اقوام جو اَدیانِ سماوی کے پیروی کرنے والی ہیں، وہ اقلیت میں ہیں، اس سے انھوں نے یہ نتیجہ نکالا کہ ممالک اور حکومتوں کی تاسیس میں نبوت کی کوئی ضرورت نہیں۔ابنِ خلدونؒ نے اس رائے کے اختیار کرنے میں اکابر فلاسفہ اور اسلامی مؤرخین کی رائے کی مخالفت کی۔ ان کے اس مؤقف پر امامِ انقلاب مولانا عبید اللہ سندھیؒ نے بھی تنقید کی ہے۔ ایک مصری ادیب و فلسفی محمد لطفی جمعہ لکھتے ہیں کہ ابنِ خلدونؒ نے بعد میں اپنی رائے تبدیل کر لی اور لکھا کہ نبوت اگرچہ عام ممالک کی تاسیس کے لیے ضروری نہیں، لیکن ترقی یافتہ اور با کمال حکومتوں کے لیے نبوت نا گزیر ہے۔ کیوں کہ وہ مملکت جس کی بنیاد نبوت پر ہو، دینِ و دنیا کے منافع کا مجموعہ ہوتی ہے۔ (تاریخ فلاسفۃ الاسلام، صفحہ 230)
مفتی محمد اشرف عاطف
مفتی محمد اشرف عاطف
جامعہ خیر المدارس ملتان سے فاضل، خلیفہ مجاز حضرت اقدس شاہ سعید احمد رائے پوریؒ اور ماہر تعلیم ہیں۔ آپ کو حضرت اقدس مولانا شاہ عبد العزیز رائے پوریؒ سے شرفِ بیعت حاصل ہے۔ آپ نے ایک عرصہ حضرت مولانا منظور احسن دہلویؒ کے دست راست کے طور پر جامعہ ملیہ اسلامیہ فرید ٹاؤن ساہیوال میں تدریسی اور انتظامی خدمات انجام دیں۔ ساہیوال کے معروف دینی ادارے جامعہ رشیدیہ میں بطور صدر مفتی خدمات انجام دیں۔ 1974 کی تحریک تحفظ ختم نبوت میں بھی بھرپور حصہ لیا ۔ تین دہائیوں تک سعودی عرب کے معروف تعلیمی اداروں میں درس و تدریس کے فرائض سر انجام دیتے رہے۔ آج کل ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ ٹرسٹ لاہور میں استاذ الحدیث و الفقہ کے طور پر ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔ مجلہ رحیمیہ میں سلسلہ وار "تاریخ اسلام کی ناقابل فراموش شخصیات" کے تحت مسلم تاریخ سے متعلق ان کے وقیع مضامین تسلسل کے ساتھ شائع ہورہے ہیں۔
متعلقہ مضامین
یورپ میں بنواُمیہ کی فتوحات اور علوم و فنون کی ترقی
تاریخ میں بنواُمیہ کا دورِ حکومت سیاسی اور دینی وحدت کے اعتبار سے سنہری اور فتوحات کا دور تھا۔ اُموی خلیفہ ولید بن عبدالملک کے دور میں موسیٰ بن نُصَیرافریقا کے گورنر تھے۔ طارق…
حضرت ثابت بن قیس بن شماس اَنصاریؓ ’خطیبُ النبیؐ‘
حضرت ثابت بن قیس بن شماس خزرجیؓ اَنصار کے اور رسول اللہ ﷺ کے ’’خطیب‘‘ کے لقب سے ملقب تھے۔ فصاحت و بلاغت اور خطابت میں آپؓ کو بڑی مہارت حاصل تھی، اس …
بنواُمیہ اَندلُس میں
عبدالرحمن الداخل نے اندلس پر نہ صرف عظیم الشان اسلامی سلطنت کی بنیاد رکھی، بلکہ ایک ایسی تہذیب کی بنیاد ڈالی، جو قرونِ وسطیٰ میں دنیا کی معیاری تہذیب کی حیثیت سے تسلیم کی …
اَندلُس کے علما و سائنس دان ؛شیخِ اکبر محی الدین ابنِ عربی ؒ
بارہویں صدی عیسوی کے عبقری انسان، عظیم فلسفی، مفکر، محقق، صوفی، علوم کا بحرِ ناپیدا کنار، روحانی و عرفانی نظامِ شمسی کے مدار، اسلامی تصوف میں ’’شیخِ اکبر‘…