علامہ ابنِ خلدونؒ نے اپنے ’’مقدمہ ابنِ خلدون‘‘ میں اقتصادیات پر بھی سیر حاصل بحث کی ہے۔ اقتصادی و معاشی حوالے سے ابنِ خلدونؒ کے نظریات انتہائی متأثر کن ہیں، جس سے ان کے مشاہدے کی وسعت اور اپنے عہد کے علمی وِرثے سے استفادے کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ارسطو کی طرح ابنِ خلدونؒ کا بھی یہی نظریہ ہے کہ کائنات میں جو کچھ ہے، وہ سب انسانوں کے لیے ہے، تاکہ تمام بنی نوعِ انسان اس سے فائدہ اُٹھائیں اور اپنی ضروریات پوری کر سکیں، لیکن دونوں میں فرق یہ ہے کہ ارسطو نے منطقی انداز سے استدلال کیا ہے جب کہ ابنِ خلدونؒ کے استدلال کی بنیاد قرآن کریم ہے، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اللہ تعالیٰ نے تم سب کے لیے پیدا کیا ہے جو کچھ زمین میں ہے‘‘۔ (-2 البقرہ: 29) ظاہر ہے قرآن کے بیان کردہ حقائق بھی عقل و منطق کے مطابق ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ عقل ِدرماندہ کی رسائی وہاں تک نہ ہو سکے۔
ابنِ خلدونؒ کے ہاں محنت ہی انسانی اُجرتوں کا معیار ہے، محنتیں بہ منزلۂ مبیعات و متقوِّمات (قدر و قیمت رکھنے والی چیزوں) کے ہیں۔ اگر محنت کی پوری قیمت ادا نہ کی جائے تو ظلم و استحصال ہوگا۔ معاشرے میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہوتی ہے، جس کی ساری دولت ان کی محنتیں؛ کام اور عملی صلاحیتیں ہی ہیں۔ اس لیے اگران سے ان کی محنت کی قیمت چھین لی جائے تو اس سے عمرانی تگ و دو کو سخت نقصان پہنچے گا اور ملک کی معاشی حالت تباہی کے کنارے آ لگے گی۔ ابنِ خلدونؒ سونے اور چاندی کو دولت نہیں سمجھتے، بلکہ تبادلۂ دولت کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک دولت کا واحد ذریعہ پیداوار ہے، اور پیدائشِ دولت کا اہم ذریعہ انسانی محنت ہے۔ پیداواری عمل میں جس کی جتنی محنت شامل ہو گی، اتنی ہی اس کی اُجرت ہوگی۔ ان کے نزدیک محنت و عمل کے بغیر قدرتی ذرائع سے بھی فائدہ اُٹھانا ممکن نہیں۔ نہریں، چشمے اور قدرتی سوتے تک خشک ہو جاتے ہیں۔ اگر جانور کے تھنوں میں دودھ ہو اور کوئی دوہنے والا نہ ہو تو یہ تھن سوکھ جائیں گے۔
محنت و عمل کے حوالے سے ابنِ خلدونؒ کا یہ بھی نظریہ ہے کہ اس طرح کا ضابطہ بنایا جائے کہ محنت کش طبقے سے اسی قدر محنت لی جائے، جس سے ان میں نشاطِ کار باقی رہے، یعنی خوش اسلوبی کے ساتھ کام کرنے کی صلاحیتیں قائم رہیں۔ اگر ان سے جانوروں کی طرح کام لیا جائے گا تو صنعتی اور پیداواری ارتقا رُک جائے گا۔ ملک کی قوتِ کار کو نقصان پہنچے گا اور عمرانی تقاضے مجروح ہوں گے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ کارل مارکس نے جو اقتصادی نظریات پیش کیے ہیں، ابنِ خلدونؒ نے تقریباً پانچ سو سال پہلے اور حضرت امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے اس سے دو سو سال پہلے پیش کر دیے تھے۔
(مقدمہ ابن خلدون، باب: فی حقیقۃ الرزق والکسب و شرحھما ان الکسب ھو قیمۃ الاعمال البشریۃ، ج: 1، ص: 604)
ٹیگز
مفتی محمد اشرف عاطف
مفتی محمد اشرف عاطف
جامعہ خیر المدارس ملتان سے فاضل، خلیفہ مجاز حضرت اقدس شاہ سعید احمد رائے پوریؒ اور ماہر تعلیم ہیں۔ آپ کو حضرت اقدس مولانا شاہ عبد العزیز رائے پوریؒ سے شرفِ بیعت حاصل ہے۔ آپ نے ایک عرصہ حضرت مولانا منظور احسن دہلویؒ کے دست راست کے طور پر جامعہ ملیہ اسلامیہ فرید ٹاؤن ساہیوال میں تدریسی اور انتظامی خدمات انجام دیں۔ ساہیوال کے معروف دینی ادارے جامعہ رشیدیہ میں بطور صدر مفتی خدمات انجام دیں۔ 1974 کی تحریک تحفظ ختم نبوت میں بھی بھرپور حصہ لیا ۔ تین دہائیوں تک سعودی عرب کے معروف تعلیمی اداروں میں درس و تدریس کے فرائض سر انجام دیتے رہے۔ آج کل ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ ٹرسٹ لاہور میں استاذ الحدیث و الفقہ کے طور پر ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔ مجلہ رحیمیہ میں سلسلہ وار "تاریخ اسلام کی ناقابل فراموش شخصیات" کے تحت مسلم تاریخ سے متعلق ان کے وقیع مضامین تسلسل کے ساتھ شائع ہورہے ہیں۔
متعلقہ مضامین
ایران پاکستان معاشی تعلقات
دس سال پہلے IPI Gas Pipeline کے منصوبے کا ایران پاکستان بارڈر پر سنگِ بنیاد رکھا گیا، جس کے تحت 2777 کلومیٹر لمبی گیس پائپ لائن کے پاکستانی حصے پر کام شروع ہونا تھا اور ا…
تبدیلیٔ نظام؛ وقت کی سب سے بڑی ضرورت
آج کل ہماری معیشت جن تجربات سے گزر رہی ہے، اسے دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے فیصلہ ساز وں نے اپنے ہی سابقہ ادوار سے کچھ نہیں سیکھا۔ ڈالر کی قیمت کو مصنوعی انداز می…
یہ سب کون کرے گا؟
کسی بھی ملک کی عالمی تجارت کی مثال ایسی ہے جیسے کسی خاندان کے پاس خرچ کرنے کے لیے مجموعی رقم ہو، جو خاندان کے تمام ارکان مل جُل کر اکٹھا کرتے ہیں اور ان جمع شدہ وسائل سے …
الیکشن کے بعد
دُنیا میں یوکرین اور غزہ کے خطوں میں دو بڑی جنگیں لڑی جارہی ہیں، جنھوں نے مشرقِ وسطیٰ اور یورپ کے ایک بڑے حصے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ ان جنگوں کو جاری رکھنا حقیقت میں ا…