انسان علم و فکر اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کی وجہ سے دیگر حیوانات سے ممتاز ہے۔ فکری قوت و استعداد کی وجہ سے وہ اُمورِ معاش پر غور کرتا ہے۔ دیگر اَبنائے جنس کے ساتھ معاملات طے کرتا ہے اور عُمرانی زندگی کی طرح ڈالتا ہے۔ غور و فکر کی عادت اس سے لمحہ بھر کے لیے بھی جدا نہیں ہوتی۔ اسی عادت سے ہی علوم و فنون کے چشمے پھوٹتے ہیں اور صنعت و حرفت کے سوتے اُبھرتے ہیں۔ حصولِ تعلیم کے حوالے سے علامہ ابن خلدونؒ لکھتے ہیں کہ اساتذہ کو تدریج کے فطری اُصول کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔ طالبِ علم کی صلاحیت و استعداد کو بھی دیکھا جائے کہ اس کا ذہن علوم و فنون کی کتنی مقدار برداشت کرسکتا ہے۔ کچھ اساتذہ کی ابتدائی مرحلے میں کوشش ہوتی ہے کہ سب کچھ طالبِ علم کے ذہن میں اُنڈیل دیں۔ اس سے طالبِ علم کے ذہن میں علمی ملکہ پیدا نہیں ہوتا، جو کہ حصولِ علم کے لیے نہایت ضروری ہے، بلکہ اس طرزِ عمل سے طالبِ علم کند ذہن ہوجاتا ہے اور اسے علوم و فنون سے ایک طرح کی نفرت پیدا ہوجاتی ہے۔ اساتذہ جو فن بھی پڑھائیں، اس کی اہم اور ضروری اصطلاحات توضیح و تشریح کے ساتھ طلبا کے ذہن نشین کرائی جائیں۔ گرد و پیش کی محسوسات کی مثالیں دے کر سمجھایا جائے۔ علم و فن کی مشکلات اور ایک ایک پیچیدگی کا حل پیش کیا جائے۔ اس حوالے سے طلبا کو سوال کرنے کی اجازت دی جائے۔ اس طریقۂ تعلیم سے طالبِ علم میں علمی ملکہ راسخ ہوگا۔ مزید یہ کہ طلبا علمی مسائل میں باہمی مذاکرہ و مکالمہ کریں۔ اس سے بھی ان میں علمی مہارت پیدا ہوگی۔
حصولِ تعلیم کے حوالے سے طالبِ علم پر سختی کرنا نہایت مُضِر اور نقصان دہ ہے۔ بالخصوص ابتدائی سطح کے بچوں پر سختی کے بھیانک نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ سختی سے ذہن و فکر کی وسعت اور خوشی ماند پڑ جاتی ہے۔ اور اس کی جگہ کسل مندی، جھوٹ اور نفاق پیدا ہوجاتا ہے۔ سب سے زیادہ نقصان تربیتی پہلو سے ہوتا ہے۔ انسانی نفس میں جو حمّیت و مدافعت کا جذبہ ہوتا ہے، وہ کمزور پڑ جاتا ہے اور دوسروں پر بھروسے کا رُجحان بڑھ جاتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جو اقوام سختی و تسلط کے سائے میں پروان چڑھتی ہیں، ان میں اَخلاقی بُرائیاں پیدا ہوتی ہیں۔ تعلیم کے میدان میں بھی یہ اُصول پیشِ نظر رہے گا۔
علامہ ابن خلدونؒ کے ہاں ذہانت بہ قدرِ تمدن ہوتی ہے۔ جہاں تمدن اعلیٰ ہوتا ہے، وہاں کے لوگ اسی نسبت سے ذہین اور ذکی ہوتے ہیں۔ متمدن اقوام اپنے مخصوص آداب و اصول رکھتے ہیں۔ خواہ وہ معاشی اصول ہوں یا سماجی، دینی ہوں یا دُنیوی۔ وہ اپنے تمام معاملات و عادات اور تصرفات میں اپنے دائرے اور حدود میں رہ کر اپنے اُمور سرانجام دیتے ہیں۔ گویا ان کے تمام معاملات بہ منزلہ ایک منظم کاری گری کے ہیں اور اس میں شک نہیں کہ ہر منظم تمدن سے نفسِ انسانی اثرات قبول کرتا ہے، جن سے عقل و دانش میں اضافہ ہوتا ہے۔ برخلاف غیرمتمدن معاشروں کے، وہاں چوں کہ یہ اصول و ضوابط پیش نظر نہیں ہوتے، اس لیے وہ ذہانت و ذکاوت میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔
ٹیگز
مفتی محمد اشرف عاطف
مفتی محمد اشرف عاطف
جامعہ خیر المدارس ملتان سے فاضل، خلیفہ مجاز حضرت اقدس شاہ سعید احمد رائے پوریؒ اور ماہر تعلیم ہیں۔ آپ کو حضرت اقدس مولانا شاہ عبد العزیز رائے پوریؒ سے شرفِ بیعت حاصل ہے۔ آپ نے ایک عرصہ حضرت مولانا منظور احسن دہلویؒ کے دست راست کے طور پر جامعہ ملیہ اسلامیہ فرید ٹاؤن ساہیوال میں تدریسی اور انتظامی خدمات انجام دیں۔ ساہیوال کے معروف دینی ادارے جامعہ رشیدیہ میں بطور صدر مفتی خدمات انجام دیں۔ 1974 کی تحریک تحفظ ختم نبوت میں بھی بھرپور حصہ لیا ۔ تین دہائیوں تک سعودی عرب کے معروف تعلیمی اداروں میں درس و تدریس کے فرائض سر انجام دیتے رہے۔ آج کل ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ ٹرسٹ لاہور میں استاذ الحدیث و الفقہ کے طور پر ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔ مجلہ رحیمیہ میں سلسلہ وار "تاریخ اسلام کی ناقابل فراموش شخصیات" کے تحت مسلم تاریخ سے متعلق ان کے وقیع مضامین تسلسل کے ساتھ شائع ہورہے ہیں۔
متعلقہ مضامین
مامون الرشید کا علمی ذوق
بیت الحکمت بغداد کا علمی ادارہ اگرچہ ہارون الرشید نے قائم کیا تھا،لیکن اس کو کمال کی بلندیوں تک پہنچانے اور ایک تحقیقی ادارہ بنانے کا سہرا مامون الرشید کے سر ہے۔ مامون ا…
علم دوست و علم نواز عباسی خلیفہ
ہارون الرشید خلافتِ بنوعباس کے تیسرے خلیفہ، ابوجعفر منصور کے بیٹے محمد مہدی تقریباً دس سال مسند ِخلافت پر فائز رہے۔ محمدمہدی فرض شناس حکمران کے طور پر مشہور ہوئے۔ ان کا دو…
حضرت ثابت بن قیس بن شماس اَنصاریؓ ’خطیبُ النبیؐ‘
حضرت ثابت بن قیس بن شماس خزرجیؓ اَنصار کے اور رسول اللہ ﷺ کے ’’خطیب‘‘ کے لقب سے ملقب تھے۔ فصاحت و بلاغت اور خطابت میں آپؓ کو بڑی مہارت حاصل تھی، اس …
بنواُمیہ اَندلُس میں
عبدالرحمن الداخل نے اندلس پر نہ صرف عظیم الشان اسلامی سلطنت کی بنیاد رکھی، بلکہ ایک ایسی تہذیب کی بنیاد ڈالی، جو قرونِ وسطیٰ میں دنیا کی معیاری تہذیب کی حیثیت سے تسلیم کی …