انڈین پارلیمان نے ستمبر 2020ء کے تیسرے ہفتے میں زراعت کے متعلق یکے بعد دیگرے تین بل متعارف کروائے، جنھیں فوراً قانونی حیثیت دے دی گئی۔ انھیں ’’بازار کو سہولت فراہم کرنے والے‘‘ قوانین کہا گیا ہے۔ پہلا قانون ’’زرعی پیداوار، تجارت اور کامرس قانون 2020ئ‘‘ ہے۔ دوسرا ’’کسان (امپاورمنٹ اور پروٹیکشن) زرعی سروس قانون 2020‘‘ ہے، جس میں قیمت کی یقین دہانی اور معاہدے شامل ہیں۔ تیسرا ’’ضروری اشیا (ترمیمی) قانون‘‘ہے۔
پہلے قانون میں ماحولیاتی نظام بنانے کے لیے ایک شق شامل کی گئی ہے، جہاں کسانوں اور تاجروں کو مارکیٹ کے باہر فصلیں فروخت کرنے کی آزادی ہوگی۔ ان دفعات میں ریاست کے اندر اور دو ریاستوں کے مابین تجارت کو فروغ دینے کے بارے میں کہا گیا ہے، جس کی وجہ سے مارکیٹنگ اور نقل و حمل کے اخراجات کوکم کرنے کی بات کہی گئی ہے۔ کسان (امپاورمنٹ اور پروٹیکشن) زرعی قانون 2020ء میں زرعی معاہدوں پر قومی فریم ورک مہیا کیا گیا ہے۔
اس بل سے کاشت کاروں کو زرعی مصنوعات، فارم خدمات، زرعی کاروباری کمپنیوں، پروسیسرز، تھوک فروشوں، بڑے خوردہ فروشوں اور برآمد کنندگان کی فروخت میں شامل ہونے کا اختیار دیا گیا ہے۔ معیاری بیج کی فراہمی کو یقینی بنانا، تکنیکی معاونت اور فصلوں کی صحت کی نگرانی کے ساتھ ساتھ معاہدہ کرنے والے کسانوں کو قرض کی سہولیات اور فصلوں کی انشورنس فراہم کی جائے گی۔ ضروری اشیا (ترمیمی) قانون 2020ء کے تحت اناج، دالیں، خوردنی تیل، آلو، پیاز کو اشیائے ضروریہ کی فہرست سے نکالنے کا انتظام کیا گیا ہے۔
مرکزی حکومت کی جانب سے متعارف کروائی گئی ان اصلاحات کے خلاف 8؍ ستمبر 2020ء سے ملک گیر ہڑتال ’بھارت بند‘ کا سلسلہ تا حال جاری ہے۔ زراعت کے شعبے میں ’’بازار کو سہولت فراہم کرنے والے‘‘ قوانین کے نفاذ سے نجی کردار کے باعث کسانوں کی آمدنی متأثر ہوگی۔ کسانوں کے مطالبات کو درست ٹھہراتے ہوئے حزبِ اختلاف کی اہم پارٹی کانگرس اور بائیں بازو کی جماعتوں نے علاقائی سطح پر مضبوط پارٹی ڈی ایم کے، ٹی آر ایس، ایس پی، بی ایس آر، آرجے ڈی، شیو سینا، این سی پی، اکالی دل، عام آدمی پارٹی، جے ایم ایم اور گپکر اتحاد نے ’’بھارت بند‘‘ کی حمایت کی ہے۔
یہ متنازع اصلاحات زرعی اجناس کی فروخت، قیمت اور ذخیرہ کرنے کے حوالے سے موجودہ قواعد کونرم کردیں گی۔ انڈیا کے کسان ان قواعد کی وجہ سے دہائیوں تک آزادانہ مارکیٹ کی قوتوں سے محفوظ رہے ہیں۔ ان نئے قوانین کے نفاذ سے نجی خریدار بھی مستقبل میں فروخت کے لیے ضروری اجناس ذخیرہ کرسکیں گے، جوکہ اس سے پہلے صرف حکومت سے منظور شدہ ایجنٹ ہی کرسکتے تھے۔ اس کے علاوہ ان میں ٹھیکے پر زراعت کے قواعد بھی بنائے گئے ہیں، جن میں کسان کسی مخصوص خریدار کی طلب کو مدِنظر رکھتے ہوئے اپنی پیداوار میں بھی تبدیلی کرسکتے ہیں۔ سب سے بڑی تبدیلی یہ ہے کہ کسان اپنی پیداوار براہِ راست نجی شعبے (زرعی کاروبار، سپر مارکیٹس اور آن لائن سودا سلف کی ویب سائٹس) کو مارکیٹ قیمتوں پر فروخت کرسکیں گے۔
حالیہ صورتِ حا ل میں بھارتی کسان اس وقت اپنی پیداوار کا زیادہ تر حصہ حکومت کے زیرِانتظام تھوک منڈیوں میں امدادی قیمت پر فروخت کرتے ہیں۔ یہ منڈیاں مارکیٹ کمیٹیاں چلاتی ہیں۔ کسان، بڑے زمین دار اور تاجر، یا کمیشن ایجنٹ بھی ان میں شامل ہوتے ہیں۔ ان ایجنٹوں کا کام اجناس کی فروخت کے لیے آڑھتی کا کردار ادا کرنا، ذخیرہ کرنا، نقل و حمل کا انتظام کرنا اور سودے بازی کے عمل میں شریک رہنا ہے۔ کم از کم کاغذات کی حد تک تو یہ اصلاحات کسانوں کی پیداوار منڈیوں کے اس نظام سے باہر فروخت کرنے کی اجازت دیتی ہیں۔ کسانوں کو تشویش ہے کہ ان اصلاحات سے بالآخر تھوک منڈیاں اور امدادی قیمتیں ختم ہوجائیں گی۔ ان کے پاس کوئی سہارا نہیں بچے گا۔ اگر وہ کسی نجی خریدار کی پیش کش کردہ قیمت سے مطمئن نہ ہو ں تو وہ منڈ ی میں جاکر اسے فروخت نہیں کرسکیں گے، نہ ہی منڈی کی قیمت کو بنیاد بناکر خریدار سے بھائو تائو کرسکیں گے۔
موجودہ قوانین کا مقصد بڑے کاروباریوں کے لیے ملک کے زرعی شعبے میں عمل دخل پیدا کرنا ہے۔ زرعی شعبے میں بڑی کارپوریشنوں کا عمل دخل بڑھانے سے منفی اثرات پیدا ہوسکتے ہیں، جس سے چھوٹے کسانوں کی زرعی آمدنی مزید کم ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ انھیں بے رحم نجی کاروباری جتھوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دینا ایسا ہی ہے، جیسے کسی بکریوں کے ریوڑ کو بھیڑیوں کے آگے ڈال دیا جائے۔ مجموعی طور پر یہ اصلاحات زرعی اجناس کی فروخت، ان کی قیمتوں کے تعین اور ان کے ذخیرہ کرنے سے متعلق طریقۂ کار کو تبدیل کرنے کے بارے میں ہیں۔ نئے قوانین کے تحت نجی خریداروں کو یہ اجازت حاصل ہو گی کہ وہ مستقبل میں فروخت کرنے کے لیے براہِ راست چھوٹے کسانوں سے ان کی پیداوار خرید کر ذخیرہ کرلیں۔ کسی کسان تنظیم کی طرف سے ان اصلاحات کا کبھی تقاضا نہیں کیا گیا۔ مودی حکومت کو پنجاب اور ہریانہ کے کسانوں کا اس قدر درد کیوں محسوس ہونے لگا؟ اصل وجہ یہ ہے کہ گز شتہ صدی میں 60 کی دہائی کے دوران انڈیا میں زرعی اصلاحات کے نتیجے میں زراعت کے شعبے میں جو گراں قدر ترقی ہوئی تھی، دیوہیکل کاروباری کارپوریشنیں ان ثمرات پرللچائی ہوئی نظریں جمائے ہوئے تھیں۔ وہ موجودہ حکومت کے ذریعے ان ریاستوں کی عوام سے انھیں چھیننا چاہتی ہیں۔ کسان دوستی کی بنیاد پر گزشتہ قومی حکومتوں نے جو زرعی نظام بنایا تھا، آج دنیا کی فوڈ چینز اُسے ختم کرکے اپنے سامراجی مقاصد پورا کرنے کے لیے وہاں کے زرعی نظام کو بدلنا چاہتی ہیں۔ یہ وہاں عام کسان کے لیے تباہی کا راستہ ہے۔ اسی لیے اُن کی ہڑتال کامیاب جا رہی ہے۔
ٹیگز
مرزا محمد رمضان
مرزا محمد رمضان نے ساہیوال میں 1980 کی دہائی کے آغاز میں حضرت مولانا منظور احسن دہلویؒ کی مجالس سے دینی شعور کے سفر کا آغاز کیا اور پھر حضرت مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ سے ان کی رحلت تک تعلیم و تربیت کا تعلق استقامت کے ساتھ استوار رکھا۔ اب حضرت مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری مدظلہ سے وابستہ ہیں۔ بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے معاشیات میں ماسٹرز کرنے کے بعد اسٹیٹ بینک آف پاکستان سے وابستہ ہوئے اور 33 سال تک پیشہ ورانہ خدمات سر انجام دیتے رہے۔ اس کے علاوہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے ادارہ آئی بی پی میں پانج سال تک معاشیات، اکاونٹس اور بینکنگ لاز میں تعلیم دیتے رہے۔ معیشت کے ساتھ ساتھ آپ قومی و بین الاقوامی امور و حالات حاضرہ پر مجلہ رحیمیہ میں گزشتہ کئی سالوں سے "عالمی منظر نامہ"کے سلسلہ کے تحت بین الاقوامی حالات حاضرہ پر مضامین لکھ رہے ہیں۔
متعلقہ مضامین
تنازعۂ فلسطین کا حالیہ مظہر
نباتاتی زندگی اپنے اندر ایک مربوط اور مضبوط نظام رکھتی ہے، جس کا اَساسی تعلق اس کی جڑوں سے ہوتا ہے، جو زمین میں مخفی ہوتی ہیں۔ یہ نظام انسانوں کی نظروں سے اوجھل رہتا ہے۔ …
ایشیائی طاقتیں اور مستقبل کا افغانستان
پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کے بہ قول ’’مغلوں کے دور میں ہندوستان پوری دنیا کی مجموعی پیدا وار کا 24 فی صد حصہ اکیلا پیدا کرتا تھا، لیکن برطانیہ نے اسے لوٹ …
استعمار کا شکست خوردہ مکروہ چہرہ
استعماری نظام پے در پے ناکامیوں کے بعد شکست و ریخت کاشکار ہوچکا ہے۔ اپنے غلبے کے دور میں دنیا میں ظلم و زیادتی اور قہر و غضب کی بدترین مثالیں رقم کیں۔ دعوے کے طور پر تو …
عالمی معاہدات کی صریحاً خلاف ورزیاں
(نینسی پیلوسی کا دورۂ تائیوان) چینی اخبار گلوبل ٹائم کے مطابق امریکی ایوانِ نمائندگان کی سپیکر نینسی پلوسی رات کی تاریکی میں تائیوان کے دارلحکومت تائے پی شہر میں 2؍ اگ…