افغانستان‘ تاریخ کے اَن مِٹ نقوش کا حامل خطہ ہے، جو صدیوں پرانے طاقت ور خاندانوں اور ان کی بادشاہتوں کا مرکز رہا ہے۔ یہ بدیسی طالع آزماؤں کا تختۂ مشق بھی رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ خطے میں آزادی کی تحریکات کا سرخیل بھی رہا اور عالمی قوتوں کا میدان جنگ بھی رہا ہے۔ آج پھر ایسی تبدیلی کا شکار ہے جو خطے کی قوتوں کی نہ ختم ہونے والی مخاصمت کا نتیجہ ہے۔ اس چپقلش کی روحِ رواں عصرِ حاضر کی عالمی طاقتیں اب اس خطے کو پہلے سے کہیں زیادہ جانتی ہیں۔ یہاں کے اب تک معلوم معدنی وسائل __ جو ایک اندازے کے مطابق دس کھرب ڈالر کی مالیت کے ہیں __ دراصل یہاں اس سیاسی اور معاشی کھینچا تانی کی ایک بڑی وجہ ہیں۔ ان معدنی وسائل میں ریئرارتھ میٹل(Rare Earth Metals)اور لیتھیم(Lithium)جیسی دولت دراصل مستقبل کی سب سے بڑی دولت ہے، جو روزمرہ زندگی میں استعمال ہونے والے موبائل فون، میڈیکل تشخیص کے آلات، ہوائی صنعت سے لے کر خلائی دریافتوںاور دیگر سیّاروں پر کمند ڈالنے کی ٹیکنالوجی والے آلات کے لیے کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔
گزشتہ ستر سالوں میں پاکستان اور افغانستان ایک دوسرے کے خلاف خوب استعمال ہوئے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ سکندر مرزا ہو یا سردار داؤد، ضیاء الحق ہو یا حامد کرزئی، سب نے پاکستان اور افغانستان کی کنفیڈریشن کے خواب دیکھے ہیں۔ ان خوابوں کی تعبیر کے لیے امریکی آقا بھی تیار تھے۔ چناں چہ صدر اوباما ایڈمنسٹریشن میں پاکستان اور افغانستان کو مشترکہ حکمتِ عملی کے تحت کنٹرول کرنے کے لیےAfPakکا استعارہ تواتر سے استعمال کیا جاتا رہا۔ یہ ممکن نہیں کہ ان دو خطوں کو ایک دوسرے سے الگ کردیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ ان دونوں ملکوں میں ڈیورنڈ لائن کو حتمی سرحد کے طور پر قبول نہیں کیا گیا۔ چناں چہ اس پر پاکستانی حکومت کی جانب سے باڑ کی تعمیر کو سرحد کے دونوں طرف آڑے ہاتھوں لیا گیا۔ اس 2640 کلومیٹر کی سرحد کو روزانہ اوسطاً پچاس ہزار افراد اور 400ٹرک لگ بھگ چھ مختلف مقامات سے کراس کرتے ہیں، جو طالبان کے انتظام سنبھالنے کے بعد تین گنا بڑھ چکے ہیں۔
افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کی سہولت تمام تر نفرتوں اور کدورتوں کے باوجود جاری ہے، جو کُل افغان درآمدات کا 55 فی صد ہے، جب کہ پاکستان سالانہ بنیادوں پر قریباً ایک ارب ڈالر کی برآمدات کرتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کا حتمی اندازہ لگانا مشکل ہے۔ کیوں کہ اربوں ڈالر پاکستان سے صرف کاغذی کارروائی میں درآمدات و برآمدات کی مد میں جاتے اور آتے ہیں، تاکہ اندرونی و بیرونی یار لوگوں کی کرپشن سے کمائی ہوئی دولت کو قانونی تحفظ مل سکے۔
اگر پاکستان اور افغانستان کی سیاسی صورت حال کو متوازی رکھ کر دیکھا جائے تو یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہوتا کہ پاکستانی مقتدرہ افغانستان کے اندرونی معاملات میں ایسے دخل اندازی کرتی ہے، جیسے یہ پاکستان کا کوئی صوبہ ہو۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ افغانستان کی سیاسی صورتِ حال سے پاکستانی مقتدرہ صَرفِ نظر کرے۔ طالبان کی صورت نئی تشکیل میں ہماری مقتدرہ کا کلیدی کردار ہے۔ پاکستان کے لحاظ سے یہ بہ ظاہر ایک مثبت تبدیلی ہے۔ تمام مقامی قوتوں کو ساتھ لے کر چلنے کے حوالے سے طالبان کے حالیہ بیان اور پاکستان سے روزمرہ استعمال کی درآمدی اشیا پر ٹیکس کی کمی کا اعلان دراصل ایک بہتر مستقبل کی نوید سنا رہا ہے۔ اگر پاکستان اور مقامی علاقائی قوتیں اس تبدیلی کو اپنے حق میں کرنے میں کامیاب ہوگئیں تو ان دونوں ممالک کا معاشی مستقبل روشن ہوسکتا ہے۔
محمد کاشف شریف
محمد کاشف شریف 1999ء میں انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد سے MBA کرنے کے بعد اڑھائی سال تک محمد علی جناح یونیورسٹی میں تدریسی خدمات سرانجام دیتے رہے. اس کے بعد انہوں نے 18 سال DHA اسلام آباد میں پیشہ ورانہ ذمہ داریاں ادا کیں۔ اس وقت وہ متعدد تعمیراتی اور ترقیاتی کام کرنے والی کمپنیوں کے ساتھ بطور ایڈوائیزر برائے فائنانس و ٹیکسیشن خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ نظام معیشت، معاشی منصوبہ بندی اور تعمیراتی شعبے میں ماہر ہیں۔ ایک عرصہ سے حضرت مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری کی سرپرستی میں ادارہ رحیمیہ علومِ قرآنیہ لاہور کے تعلیمی و تدریسی پروجیکٹ میں اعزازی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ مجلہ رحیمیہ لاہور میں معیشت کے موضوع پر مستقل مضامین لکھ رہے ہیں۔
متعلقہ مضامین
معاشی پھیلاؤ کا بجٹ
آمدہ سال حکومت 131 کھرب روپے خرچ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس مقصد کے لیے خود حکومتی اندازے کے مطابق قریباً 79 کھرب روپے وصول کیے جاسکیں گے۔ باقی رقم اندرونی اور بیرونی قرض…
تبدیلیٔ نظام؛ وقت کی سب سے بڑی ضرورت
آج کل ہماری معیشت جن تجربات سے گزر رہی ہے، اسے دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے فیصلہ ساز وں نے اپنے ہی سابقہ ادوار سے کچھ نہیں سیکھا۔ ڈالر کی قیمت کو مصنوعی انداز می…
معاشی بقا میں آفت زدہ پاکستانیوں کا کردار
اگست 2022ء میں سب مشکل میں تھے۔ ڈالر اور مہنگائی بے لگام تھے۔ آئی ایم ایف سرکار نالاں تھی کہ پاکستان وعدہ خلاف ہے۔ اس تناظر میں سب سانس روک کر بیٹھے تھے کہ کہیں 1.2 ارب …
ڈالر سے محبت ہی بہت ہے؟
پاکستان پر اندرونی و بیرونی قرضوں کا حجم 410 کھرب روپے کے لگ بھگ ہوچکا ہے۔ ایک سال کے دوران اس میں اوسطاً 30 کھرب روپوں کا اضافہ ہو ہی جاتا ہے۔ اس کی بڑی وجہ ہمارے اخراجا…