

حضرت ابو یعلیٰ شدّاد بن اوس بن ثابت بن منذر انصاری خزرجی رضی اللہ عنہ مشہور صحابیٔ رسول تھے۔ آپ شاعرِ رسول حضرت حسان بن ثابتؓ کے بھتیجے تھے۔ بہت عبادت گزار، پرہیزگار اور خداترس انسان تھے۔ آپؓ کے کلمات‘ فصاحت و بلاغت اور حکمت سے بھرپور ہوتے تھے۔ معرکۂ بدرکے علاوہ دورِ نبویؐ کی تمام سر گرمیوں میں آپؓ شامل رہے۔ آپؓ عہدِ صحابہؓ میں مرجع علم و تفقہ تھے، اس لیے آپؓ فضلا صحابہؓ میں شمار ہوتے ہیں۔ حضرت شداد بن اَوسؓ کے متعلق صحابہ کرام کی آرا درجِ ذیل ہیں:
حضرت عبادہؓ بن صامت اور حضرت ابو درداؓ فرماتے ہیں کہ: حضرت شداد بن اَوسؓ کو علم و حلم عطا کیے گئے ہیں، حال آں کہ لوگوں کو عموماً ایک چیز دی جاتی ہے۔ حضرت ابودرداؓ مزید فرماتے ہیں کہ: ’’ہر اُمت میں ایک فقیہ ہوتا ہے اور اس اُمت کا فقیہ شداد ہے‘‘۔ فقیہ وہ ہے، جو علمِ حق اور حقائقِ زمانہ دونوں پر مکمل آگاہی و بصیرت رکھتا ہو۔ حضرت خالد بن معدانؓ فرماتے ہیں کہ: ’’شام میں کوئی ایسی شخصیت نہیں ہے، جو حضرت عبادہ بن صامتؓ اور حضرت شداد ابن اوسؓ سے زیادہ قابلِ اعتماد، صاحبِ بصیرت اور اہلِ علم کے ہاں پسندیدہ ہو‘‘۔
آپؓ سے آپؓ کے بیٹے اور شام کے ابو اشعث صنعانی، ابو ادریس خولانی وغیرہ اہلِ علم نے احادیث روایت کی ہیں۔ آپؓ سے کتب حدیث؛ مثلا مسند احمد، سنن نسائی، ترمذی اور طبری وغیرہ میں 50 روایات موجود ہیں۔ حضرت شدادؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: ’’اس اُمت کے بدترین لوگ‘ سابقہ اہلِ کتاب کے طور طریقے مکمل طور پر اختیار کریں گے‘‘۔
’’طبرانی‘‘ میں ہے کہ حضرت شدادؓ مرض وفات میں رسول اللہ ﷺ کے پاس تھے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’تم بے قرار ہو‘‘۔ عرض کی: دنیا تنگ لگ رہی ہے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’تم پر کوئی تنگی نہیں۔ عنقریب شام اور بیت المقدس فتح ہوگا، جس میں ان شاء اللہ تمھارے بعد تمھارے بیٹے پیشوا ہوں گے‘‘۔ گویا آپؐ نے حضرت شداؓد کو دینِ حق کے غلبے اور مسلمان نسل کے مستقبل میں فتوحات کی بشارت دی۔
حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہٗ کے عہدِ خلافت میں حضرت شدادؓ کو شام کے شہر حمص کی گورنری پر فائز کیا گیا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہٗ کی شہادت کے بعد حضرت شداؓد ملکی معاملات سے علاحدہ ہو گئے اور پھر عبادت و ریاضت میں مصروف وقت گزارا ۔
حضرت شدادؓ عمر کے آخری حصے میں بیت المقدس تشریف لے گئے اور وہیں 75 سال کی عمر میں۵۸ھ میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہٗ کے عہدِ خلافت میں وفات پائی۔ آپؓ کی قبر بیت المقدس میں ’’باب الرحمت‘‘ کے باہر موجود ہے۔
ٹیگز

مولانا قاضی محمد یوسف
مولانا قاضی محمد یوسف کا شمار حضرت اقدس شاہ سعید احمد رائے پوری ؒ کے خلفاء مجازین میں ہوتا ہے۔ مدرسہ اشرفیہ تعلیم القرآن (حسن ابدال) اور گوجرانوالا اور جامعہ مدنیہ لاہور میں زیر تعلیم رہے۔ 1988ء میں فاضل عربی/ فاضل اردو کی سند حاصل کرنے کے بعد پنجاب یونیورسٹی لاہور سے ایم۔اے اسلامیات اور طبیہ کالج راولپنڈی و نیشنل طبّی کونسل پاکستان سے طب کی باقاعدہ تعلیم بھی حاصل کی۔ 1980 کی دہائی میں دوران تعلیم حضرت مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ کی فکری جدوجہد سے منسلک ہوئے۔ 1991 میں جامعة الملك السعود الرياض سعودی عرب سے تدریب المعلمین کی سند حاصل کی. اس وقت آپ گورنمنٹ ڈگری کالج واہ کینٹ میں بطور استاد فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔’’جامعہ خادم علوم نبوۃ‘‘ حسن ابدال کے مہتمم اور جامعہ عائشہ صدیقہ حسن ابدال میں مدرس ہیں۔ مسجد خلفائے راشدین میں امامت و خطابت کے فرائض سرانجام دینے کے ساتھ ساتھ اپنا خاندانی مطب بھی چلا رہے ہیں۔ تعلیمی اور فلاحی ادارے "التقویٰ ٹرسٹ" کے سرپرست، کامیاب استاد و منتظم اور طبیب و خطیب ہیں۔ حضرت مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری مدظلہ کی سرپرستی میں خانقاہ رحیمیہ اور ادارہ رحیمیہ کے فکروعمل کی ترویج میں کوشاں ہیں۔ ماہنامہ مجلہ "رحیمیہ" میں "صحابہ کا ایمان افروز کردار" کے عنوان سے سلسلہ وار لکھ رہے ہیں۔
متعلقہ مضامین
اُمُّ المومنین حضرت اُمِ سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا
اُمُّ المومنین حضرت اُمِ سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے والد قریش کے چند مشہورِ زمانہ سخی افراد میں سے تھے۔ آپ کی والدہ عاتکہ بنت عامر کنانیہ تھیں، جن کا تعلق معزز قبیلہ بنوفراس …
خلافتِ راشدہ کے نظام میں وسیع تر بامعنی مشاورت اور آج کی جمہوریت
وطنِ عزیز کی سیاست اپنے روز ِقیام ہی سے مختلف نعروں سے عبارت رہی ہے، جیساکہ ہم نے گزشتہ ماہ کے شذرات میں یہاں اسلامی نظام کے نمائشی نعروں کے برعکس چند سنجیدہ گزارشات …
ابو عمارہ، سیّدِ شہدا ء حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہٗ
ابو عمارہ، سیّدِ شہداء حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہٗ مہاجرینِ اوّلین میں سے ہیں۔ آپؓ رسول اللہ ﷺ کے چچا، رضاعی بھائی اور آپؐ سے صرف دو سال بڑے تھے، گویا آپؐ کے ہم عمر تھے۔ حضرت ح…
حضرت ثابت بن قیس بن شماس اَنصاریؓ ’خطیبُ النبیؐ‘
حضرت ثابت بن قیس بن شماس خزرجیؓ اَنصار کے اور رسول اللہ ﷺ کے ’’خطیب‘‘ کے لقب سے ملقب تھے۔ فصاحت و بلاغت اور خطابت میں آپؓ کو بڑی مہارت حاصل تھی، اس …