ابو عمارہ، سیّدِ شہداء حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہٗ مہاجرینِ اوّلین میں سے ہیں۔ آپؓ رسول اللہ ﷺ کے چچا، رضاعی بھائی اور آپؐ سے صرف دو سال بڑے تھے، گویا آپؐ کے ہم عمر تھے۔ حضرت حمزہؓ حضوؐر سے بہت زیادہ مناسبت و محبت اور انتہائی قرب رکھتے تھے، جس کی وجہ سے آپؐ اور حضرت حمزہؓ ہمیشہ اکثر اُمور میں باہم شریک رہتے تھے۔ جب رسول اللہ ﷺ نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کا ارادہ کیا تو پیغامِ نکاح اور بات چیت کے لیے حضرت حمزؓہ کو بھیجا اور جب بارات گئی تو اس میں ابو طالب کے ساتھ حضرت حمزہؓ بھی ساتھ شریک تھے۔ خاندانی معاملات میں حضرت حمزہؓ اور رسول اللہؐ عموماً ایک رائے رکھتے تھے۔ حربِ فِجار میں بھی دونوں اکٹھے تھے۔ آپؐ نے براہ راست لڑائی میں شرکت تو نہ کی‘ لیکن حضرت حمزہؓ کو تیر پکڑاتے رہے۔
حضرت حمزہؓ پُرعزم، انتہائی سلیقہ مند اور عقل مند نوجوانوں میں سے تھے اور قریش کے بہادر اور سربرآوردہ لوگوں میں شمار ہوتے تھے۔ اس اعتبار سے مکہ میں آپؓ کو ایک بڑا وجیہ اور بلند مقام حاصل تھا۔ آپؓ نبوت کے پانچ سال بعد مسلمان ہوئے۔ حضرت عمرؓ بھی اسی عرصے میں مسلمان ہوئے۔ ان دونوں کے اسلام لانے سے مسلمانوں کو بہت زیادہ حوصلہ ملا اور حرم میں جا کر جماعت کے ساتھ اعلانیہ نماز پڑھی اور مسلمانوں نے اس زور سے اللہ اکبر کا نعرہ بلند کیا کہ پورے مکہ مکرمہ میں اس کی گونج سنائی دی۔ سردارانِ قریش پر حضرت حمزہؓ اور حضرت عمرؓ کے اسلام لانے کی دھاک بیٹھ گئی اور اُن پر رعب پیدا ہو گیا۔
حضرت حمزہؓ جہاں ایک طرف تاجر تھے، تو دوسری طرف وہ شکار کھیلنے اور فنِ سپہ گری میں ماہر تھے۔ اسی طرح سماجی اور قومی زندگی کی ضروری صلاحیتوں سے آپؓ مسلح تھے۔ اپنی شخصی وقبائلی اور قومی خوبیوں اور خدمات کی وجہ سے آپؓ ہر دل عزیز شخصیت کے مالک تھے۔ آپؓ کے اسلام لانے کے بعد امتحان اور قربانیوں کا دور شروع ہوا۔ آپؓ ’’شعبِ ابی طالب‘‘ میں رسول اللہؐ کے ساتھ رہے۔ وہاں سے نکلنے کے بعد بھی قریشِ مکہ کی طرف سے مشکلات کو مسلسل برداشت کیا۔ آپؓ نے رسول اللہؐ کے حکم سے مدینہ طیبہ ہجرت کی۔ مدینہ میں بعد آپؐ نے حضرت حمزہؓ اور حضرت زید بن حارثہؓ دونوں کو آپس میں مواخات کے طور پر جوڑ دیا، جب کہ دونوں مہاجر تھے۔
حضرت حمزہؓ نے آپؐ کے ساتھ غزوۂ بدر میں شرکت کی اور بڑی بہادری سے جنگ کی۔ غزوۂ اُحد میں شریک ہوئے اور جامِ شہادت نوش کیا۔ آپؓ کو مُثلہ کیا گیا (ناک، کان کاٹے گئے اور پیٹ چیرا گیا)۔ آپ ﷺ پر اس کا بڑا اثر تھا۔ حضرت حمزہؓ کی شہادت، قربانی اور جدوجہد نے تاریخ اسلام کے ابتدائی دور میں بڑے گہرے نقوش و آثار چھوڑے ہیں، جس سے اسلام کو ترقی و عروج ملا، جس کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
ٹیگز
مولانا قاضی محمد یوسف
مولانا قاضی محمد یوسف کا شمار حضرت اقدس شاہ سعید احمد رائے پوری ؒ کے خلفاء مجازین میں ہوتا ہے۔ مدرسہ اشرفیہ تعلیم القرآن (حسن ابدال) اور گوجرانوالا اور جامعہ مدنیہ لاہور میں زیر تعلیم رہے۔ 1988ء میں فاضل عربی/ فاضل اردو کی سند حاصل کرنے کے بعد پنجاب یونیورسٹی لاہور سے ایم۔اے اسلامیات اور طبیہ کالج راولپنڈی و نیشنل طبّی کونسل پاکستان سے طب کی باقاعدہ تعلیم بھی حاصل کی۔ 1980 کی دہائی میں دوران تعلیم حضرت مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ کی فکری جدوجہد سے منسلک ہوئے۔ 1991 میں جامعة الملك السعود الرياض سعودی عرب سے تدریب المعلمین کی سند حاصل کی. اس وقت آپ گورنمنٹ ڈگری کالج واہ کینٹ میں بطور استاد فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔’’جامعہ خادم علوم نبوۃ‘‘ حسن ابدال کے مہتمم اور جامعہ عائشہ صدیقہ حسن ابدال میں مدرس ہیں۔ مسجد خلفائے راشدین میں امامت و خطابت کے فرائض سرانجام دینے کے ساتھ ساتھ اپنا خاندانی مطب بھی چلا رہے ہیں۔ تعلیمی اور فلاحی ادارے "التقویٰ ٹرسٹ" کے سرپرست، کامیاب استاد و منتظم اور طبیب و خطیب ہیں۔ حضرت مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری مدظلہ کی سرپرستی میں خانقاہ رحیمیہ اور ادارہ رحیمیہ کے فکروعمل کی ترویج میں کوشاں ہیں۔ ماہنامہ مجلہ "رحیمیہ" میں "صحابہ کا ایمان افروز کردار" کے عنوان سے سلسلہ وار لکھ رہے ہیں۔
متعلقہ مضامین
ترقی یافتہ سرمایہ دار
گزشتہ سال کی طرح اس سال بھی وزیراعظم نے آمدہ سال کو ترقی کا سال قرار دیا ہے۔ اس کی بڑی وجہ صنعتی پیداوار، بیرونِ ملک سے ترسیلاتِ زر اور برآمدات میں اضافہ بتایا جارہا ہے۔ ا…
غلبۂ دین کی نبوی حکمت عملی اور نوجوانوں کی ذمہ داریاں
خطاب حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ (کہروڑ پکا میں بخاری چوک میں واقع جامع مسجد تالاب والی میں 14فروری 2009ء بروز ہفتہ کو عشاء کی نماز کے بعد سیرت النبی ﷺ…
سوسائٹی کے افتراق و انتشار کا سبب ؛ پست علوم و افکار
سورت البقرہ کی آیت 102 (حصہ اوّل) میں بنی اسرائیل نے شیطانی قوتوں سے انسان دشمن علم سیکھ کر حضرت سلیمان علیہ السلام کی طرف منسوب کیا ہوا تھا، جو سراسر غلط اور خلافِ حقیقت …
اُمُّ المومنین حضرت اُمِ سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا
اُمُّ المومنین حضرت اُمِ سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے والد قریش کے چند مشہورِ زمانہ سخی افراد میں سے تھے۔ آپ کی والدہ عاتکہ بنت عامر کنانیہ تھیں، جن کا تعلق معزز قبیلہ بنوفراس …