احادیثِ نبویہ ﷺ کی روشنی میں دینِ اسلام کے مربوط فلسفہ ’’علمِ اَسرار الدین‘‘ پر مبنی مجددِ ملت امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ کی مایۂ ناز تصنیف
حُجّةُ اللّٰه البالِغة کے ہفتہ وار دروس
درس :33
مبحثِ سوم: انسانی ضروریات و احتیاجات کی تسکین پر مبنی نظامِ ارتفاقات
باب: 07
نظم و نسق کے ذمہ دار حکمرانوں کی سیرت و کردار کے مسلمہ اصول و ضوابط اور ان کا اطلاقی جائزہ
مُدرِّس:
حضرت مولانا شاہ مفتی
عبد الخالق آزاد رائے پوری
بتاریخ: 12 ؍ ستمبر 2018ء
بمقام: ادارہ رحیمیہ علومِ قرآنیہ (ٹرسٹ) لاہور
*۔ ۔ ۔ ۔ درس کے چند بُنیادی نِکات ۔ ۔ ۔ ۔ *
0:00 آغاز خطاب
0:14 سابقہ درس کا خلاصہ و ربط اور لفظِ مَلِک اور مَلَک کی وضاحت
5:55 باب کے عنوان "سیرة الملوک" کی قرآن و حدیث کی روشنی میں وضاحت
۱۔ لفظِ ملوک اور ملوکیت کے غلط مفہوم کی نقاب کشائی
۲۔ خلافت بمقابلہ جمہوریت کے تصور کا تنقیدی جائزہ
۳۔ عاد ل حکمران قوم کے لئے اللہ کی بہت بڑی نعمت ہوتا ہے خواہ اس کا کوئی بھی عنوان (خلیفہ، امیر، بادشاہ ، صدر ، وزیر اعظم وغیرہ) ہو ۔
۴۔ ظالم حکمران کسی بھی خوبصورت عنوان (خلیفہ، امیر المومنین، جلالۃ الملک وغیرہ ) سے ہو وہ نا قابل قبول ہے۔
۵۔ ملوکیتِ عادله و ملوکیتِ جائرہ میں فرق
13:10 حکمران کے قابلِ تعریف مسلمہ و متفقہ اخلاق و صفات
(1) دشمنوں کے مقابلے میں بہادر و دلیر ہو۔ بزدل حکمران عوام کی نظروں میں بے وقعت ہوتا ہے۔
(2) بردبار اور حلیم ہو۔ ظالم و بد اخلاق حکمران اپنے ہی لوگ پر تباہی اتارتا ہے۔
(3) بنیادی مسائل کا شعور اور پائیدار حکمتِ عملی کی اہلیت و صلاحیت۔ وگر نہ وہ اچھا اور عمدہ سسٹم بنانے میں ناکام رہتا ہے۔
(4) عقل مند ہو۔ بے وقوف معاشرے میں لائقِ عزت نہیں ہوتا۔
(5) ذہنی و جسمانی طور پر بالغ ہو۔ بالغ نظری سے عاری ذہینت خرابیوں کا پیش خیمہ ہے۔
(6) آزاد ہو۔ آزاد رائے سے فیصلہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ غلامانہ ذہنیت سوسائٹی میں غلامی ہی پیدا کرتی ہے۔
(7) مرد ہو۔ مرد کی فعالی قوت حکومتی نظم و نسق چلانے کے لیے ممد و معاون ہے جبکہ مدنِ ناقصہ میں عورت بھی حکمران بن سکتی ہے۔
(8) سربراہ اپنی رائے رکھتا ہو۔ رائے قائم کرنا لیڈرشپ کے لیے لازمی و ضروری ہے۔
(9) دیکھنے، سننے اور گفتگو کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ معاملات سے اندھا، بہرہ اور گونگا حکمران نہیں بن سکتے۔
(10) اپنے اعلی اخلاق اور عمل و کردار سے عوام کے ہاں قابلِ احترام ہو، خاندانی طور پر اس کے قابلِ تعریف کارنامے
تجربہ شدہ ہوں۔
(11) لوگوں کا اس بات پر اعتماد ہو کہ یہ حکمران مَملکت کی ترقی میں ممکن حد تک کردار ادا کرئے گا، کوتاہی نہیں کرئے گا۔
29:23 حکمرانوں کی مذکورہ صفات و کردار ، عقل و نقل اور اجماعِ انسانیت سے تسلیم شدہ ہیں۔
32:54 مولانا سندھیؒ کے سیاسی لائحہ عمل کے تین دائرے
۱۔ جب کسی علاقے میں ایک نسل، ایک زبان اور ایک ہی مذہب رکھنے والی قوم ہو تو مضبوط اور قابلِ اعتماد حکومت قائم ہوتی ہے۔ جیسے ریاستِ مدینہ و خلافتِ راشدہ و بنو امیہ و بنو عباس
۲۔ ایسا جغرافیائی محلِ وقوع جہاں نسلیں، زبانیں، قومیں اور مذہب مختلف ہیں تو اجتماع (congress) کے اصولوں پر تمام قوموں کے نمائندوں سے عدل و انصاف کی اساس پر حکومت قائم ہوگی۔
۳۔ ظالم طبقہ کے خلاف جدوجہد جو حیلوں بہانوں سے حکومت پر ناجائز قبضہ کر لے۔
42:00 مذکورہ اصولوں کی روشنی میں تاریخی واقعات کا تجزیہ
46:14 عوام و ریاعا میں جاہ و مرتبت اور ساکھ کے لیے حکمران میں پانچ اخلاقِ فاضلہ ضروری ہیں۔
(1) بہادری (2) حکمت، (3) سخاوت، (4) عفو و درگزر (5) عوام الناس کو نفع پہنچانے کا عزم
1:00:13 حکمران کے اپنے عوام سے سلوک کو شاہ صاحبؒ نے شکاری اور وحشی جانور کی مثال سے سمجھایا ہے ۔
1:12:12 عادی مجرم اور ڈسپلن توڑنے والوں کا احتساب اور عادلانہ انتقام اور سماج کے لیے مفید کردار ادا کرنے والوں کے کام کی نوعیت کے اعتبار سے اعزاز و اکرام لازمی و ضروری ہے
پیش کردہ ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ ، لاہور ۔ پاکستان
https://www.rahimia.org/
https://web.facebook.com/rahimiainstitute/