درس قرآن 34
سورة البقرة
آیت: 159 تا 167
مُدرِّس:
شیخ التفسیر حضرت مولانا شاہ مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری
مسند نشین خانقاہ عالیہ رحیمیہ رائے پور
ناظم اعلی ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ لاہور
بمقام: ادارہ رحیمیہ علومِ قرآنیہ (ٹرسٹ) لاہور
*۔ ۔ ۔ ۔ درس کے چند بُنیادی نِکات ۔ ۔ ۔ ۔ *
0:00 آغاز درس
2:34 قرآنی تعلیمات کی اساس پر تہذیب الاخلاق کے چار اصولوں کا ذکر ہوا‘ سابقہ دروس کا ما حصل
4:27 یہ چار اصول‘ تمام اَدیانِ الہی اور کتبِ سماویہ کے مسلمہ اصول
5:51 اگلی آیات میں اصلِ دین کے تسلیم شدہ اصولوں کے مطابق تعلیم دینا، انبیاءؑ کی ذمہ داری اور کتمانِ علم بہت بڑا جرم (اِنَّ الَّذِیْنَ یَكْتُمُوْنَ مَا اَنْزَلْنَا مِنَ الْبَیِّنٰتِ وَ الْهُدٰى) میں بینات سے مراد؛ ذکر، شکر اور صبر اور ہدیٰ سے مراد شعائر اللہ
8:32 یہ تسلیم شدہ واضح اور روشن اصول‘ انسانیت پر نافذ بھی ہیں(مِن بَعْدِ مَا بَیَّنّٰهُ لِلنَّاسِ فِی الْكِتٰبِ)
9:43 نافذ شدہ قانون کو انسانوں سے چھپانے والے لعنتِ الہی اور ملاءِ اعلی کی ناراضگی کے مستحق (اُولٰٓىٕكَ یَلْعَنُهُمُ اللّٰهُ وَ یَلْعَنُهُمُ اللّٰعِنُوْنَ) میں مخلوقات کی طرف سے لعنت برسنے کا ذکر
14:40 عمومی نفعِ انسانیت کی تعلیم کا بندوبست کرنا ہر فرد کے لیے ضروری اور جبری تعلیم نافذ کرنا لازمی (حضرت سندھیؒ)
16:51 چار اصولوں کو چھپانے کے جرم سے توبہ کرنے والے، ان اصولوں کے مطابق نظامِ تعلیم درست کرنے والے اور کھل کر ان اصولوں کو بیان کرنے والوں پر لعنت کا ختم ہونا اور اللہ تعالی کا ان کی توبہ قبول کرنا (اِلَّا الَّذِیْنَ تَابُوْا وَ اَصْلَحُوْا وَ بَیَّنُوْا فَاُولٰٓىٕكَ اَتُوْبُ عَلَیْهِمْ وَ اَنَا التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ)
19:23 ان چار باتوں کے منکر اور حالتِ کفر پر مرنے والوں پر اللہ، فرشتے اور تمام انسانوں کی طرف سے ہمیشہ ہمیشہ لعنت برستی رہے گی(اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ مَاتُوْا)
20:20 اصولِ حنیفیت کی خلاف ورزی کرنے کی وجہ سے مرنے کے بعد ہمیشہ ہمیشہ کی لعنت، مسلسل عذاب کی حالت اور کسی قسم کی کوئی مہلت نہیں دی جائے گی(خٰلِدِیْنَ فِیْهَالَا یُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ وَ لَا هُمْ یُنْظَرُوْنَ)
21:37 یہاں سے ارتفاقِ اول اور دوم کے اصولوں کا بیان اور بطور تمہید کے ان چار اصولوں کی توحید کے تناظر میں دوبارہ یاددہانی
22:54 اللہ کی وحدانیت اور صفتِ رحمن و رحیم سے آغاز (وَ اِلٰهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ) میں ذکر، شکر،استقامت اور نماز کا اِجمالی ذکر
24:58 اس آیت میں توحید کے تینوں پہلو؛ توحید ذاتی، صفاتی اور افعالی کا بیان
26:25 حضرت مولانا فضلِ رحمن گنج مراد آبادیؒ نے ’’الٰہ‘‘ کا ترجمہ ’’من موہن‘‘ (من کا پسندیدہ اور دل کو کھینچنے والا) کیا ہے
28:36 یہاں سے اللہ کی توحیدِ افعالی کا اظہار اور وسائلِ معاش کا بیان، اہل عقل ان وسائل پر غور و فکر کرکے ان سے استفادہ کریں گے (اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ الآیة)
31:19 پیدا شدہ مخلوقات (آسمان و زمین) میں عقل کو غورو فکر کرنے کی دعوت اور ان میں بڑی نشانیاں (اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ)
33:31 رات دن کی تبدیلی، سورج کی گردش اور زمان و مکان پر غور و فکر کی دعوت (وَ اخْتِلَافِ الَّیْلِ وَ النَّهَارِ) وسائلِ معاش کے حصول کے لیے موسم کا بڑا عمل دخل
35:07 نفعِ انسانی کے لیے وسیلۂ معاش تجارت کا ذکر (وَ الْفُلْكِ الَّتِیْ تَجْرِیْ فِی الْبَحْرِ بِمَا یَنْفَعُ النَّاسَ)
36:09 زراعت کے لیے پانی کا بندوبست (وَ مَا اَنْزَلَ اللّٰهُ مِنَ السَّمَآءِ مِنْ مَّآءٍ الآیة) میں پانی کو حیات و زندگی کی بنیاد قرار دیا ہے
36:59 ایگری کلچر کے لیے جانوروں کا بندوبست (وَ بَثَّ فِیْهَا مِنْ كُلِّ دَآبَّةٍ)
38:22 تیز ہوائیں اور بادل‘ زراعت، تجارت اور صنعت کا ذریعہ(وَّ تَصْرِیْفِ الرِّیٰحِ وَ السَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَیْنَ السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ) اس آیت میں ارتفاقات کے بنیادی وسائل پر غور و فکر کرنے کی دعوت
41:38 انعاماتِ الہی برسانے والی ذات' اللہ کا انکار کرنا اور اس کے ساتھ شریک ٹھہرانے والی ظالم (سرمایہ پرست) ذہنیت اور اہلِ ایمان کے انسان دوست رویوں کا بیان (وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّتَّخِذُ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ اَنْدَادًا الآیة)
44:31 شرک کی سب سے بڑی خرابی' وسائلِ معاش کا ارتکاز اور مخصوص طبقے کی اجارہ داری
45:40 زراعت، صنعت اور تجارت سے مقصود‘ کل انسانیت کی بھلائی نیز سرمایہ دارانہ ذہنیت کا جائزہ
49:35 مسلمان‘ محبتِ الٰہی پر ہر چیز کی محبت کو ترجیح دیتا ہے۔
50:11 مال و دولت سے محبت کے بغیر ان کی حفاظت نہیں ہو سکتی، اس لیے محبوب ترین مال خرچ کرنے کا حکم
53:03 وسائلِ معاش اور سرمایہ کی محبت میں اندھے ظالم سرمایہ پرستوں کو دنیا و آخرت میں عذاب کی وعید (وَ لَوْ یَرَى الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا اِذْ یَرَوْنَ الْعَذَابَ)
54:34 عربوں کے ذریعے سے اللہ کی قوت کا اظہار اور دنیا کے ظالموں (مشرکینِ مکہ، مدینہ کے یہود اور قیصر و کسریٰ) کا خاتمہ (اَنَّ الْقُوَّةَ لِلّٰهِ جَمِیْعًا الآیة)
56:39 آیت میں دنیا و آخرت میں ظالموں کو الگ الگ عذاب کا وعدہ
57:30 سرمایہ پرستی کے خلاف انقلاب کے وقت ماتحتوں کا اپنے ظالم لیڈروں سے براءت کا اعلان اور عذاب سے بچنے کے تمام اسباب ختم (اِذْ تَبَرَّاَ الَّذِیْنَ اتُّبِعُوْا مِنَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْا الآیة)
1:00:20 ماتحت لوگوں کو اپنے اعمال سے رجوع کرنا کچھ کام نہیں آئے گا، حسرت اور ندامت سے اپنے اعمال دیکھیں گے اور عذاب سے چھٹکارا حاصل نہیں کر سکیں گے (وَ قَالَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْا الآیة)
1:01:50 اس رکوع میں بنیادی وسائل کا ذکر جبکہ رزق کمانے کے اصولوں کا اگلے رکوع میں بیان
https://www.rahimia.org/
https://web.facebook.com/rahimiainstitute/
https://www.youtube.com/@rahimia-institute
منجانب: رحیمیہ میڈیا