حُجّةُ اللّٰه البالِغة (قسمِ ثانی): 128 /اَبوابِ زکوة باب 04.../ مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری

تفصیل

احادیثِ نبویہ ﷺ کی روشنی میں دینِ اسلام کے مربوط فلسفہ ’’علمِ اَسرار الدین‘‘ پر مبنی مجددِ ملت امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ کی مایۂ ناز تصنیف حُجّةُ اللّٰه البالِغة کے ہفتہ وار دروس

درس : 128

قسمِ ثانی: احادیثِ رسول ﷺ پر مشتمل ملتِ اسلامیہ کا مربوط نظام و فلسفہ اور عقلی منهج کی تفصيلات

اَبوابِ زکوة باب 04
جمع شدہ زکوة کے مصارف کے بنیادی قوانین و ضوابط کا بیان، آٹھ مصارف کی تین اقسام میں درجہ بندی
زکوة و صدقات کا حضرت محمد ﷺ اور آل محمدؐ کے لیے حرام ہونے کا بنیادی راز نیز مفت خوری اور بھیک مانگنے کی شدید ممانعت

مُدرِّس:
حضرت مولانا شاہ مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری

بتاریخ: 20؍ جنوری 2021 ء

بمقام: ادارہ رحیمیہ علومِ قرآنیہ (ٹرسٹ) لاہور

*۔ ۔ ۔ ۔ درس کے چند بُنیادی نِکات ۔ ۔ ۔ ۔ *
👇
0:00 آغاز درس، باب کا دائرہ کار: جمع شدہ زکوة کے مصارف کے بنیادی قوانین و ضوابط کا بیان
0:45مصارفِ زکوة اور اجتماعی فنڈز اکٹھا کرنے کا پہلا بنیادی ضابطہ: دو طرح کے شہر اور مملکت ، سو فیصد مسلم آبادی کے علاقے
2:00 (۱)مسلم اکثریتی شہروں پر انتظامی اخراجات کم ہونے کی وجہ ٹیکس کی وصولی میں تخفیف؛ بنیادی وجہ
5:22 (۲) جن علاقوں میں مسلمانوں کے ساتھ دیگر ملتیں اور اقوام آباد ہیں، ان سے زکوة (ٹیکس) وصول کرنے میں سختی ضروری؛ قرآنی آیت {أشداء على الكفار رحماء بينهم} سے اس کا ثبوت نیز اس سختی کی چند وجوہات
7:51 نبی اکرم ﷺ کی طرف سے ان دو قسم کی آبادیوں سے متعلق مصارف و اخراجات کے جداجدا طریقوں کی نشاندھی
9:01 خالص مسلمانوں علاقوں سے دو طرح کی وصولیاں؛ پہلی نوع: جن اَموال کا کوئی مالک نہیں، انہیں عوام کے منافعِ مشترکہ میں خرچ کیا جائے گا،
11:46 دوسری نوع: مسلمانوں کی زکوة و صدقات کا مال بیت المال میں جمع کیا جائےگا، ان کا مصرف انفرادی طور پر ایک فرد یا خاص نوع کو مالک بنانا
12:20 قرآنی آیت {إنما الصدقات للفقراء والمساكين} میں دوسری نوع کا ثبوت اور آٹھ مصارف کی تین اقسام میں درجہ بندی
13:11 اول، محتاج لوگ (فقیر، مسکین، یتیم، مسافر اور مقروض)
14:34 دوم، محافظین: مجاہدین (سیکورٹی فورسز) اور عاملین (انتظامی عملہ)
15:30 سوم، فتنہ و فساد کے خاتمے کے لیے یا ناگہانی و اچانک مصیبت دور کرنے کے لیے مال خرچ کرنا (تالیفِ قلب) مصرف کی وجہ اور راز
18:08 آٹھ مصارف میں سےکس مصرف پر کتنا خرچ کرنا ہے؟ یہ انتظامی اتھارٹی کے سپرد ہے۔
19:38 کیا آٹھ مصارف کے علاوہ زکوة کا مال خرچ کرنے کی گنجائش ہے؟ آئمہ کا اختلاف اور شاہ صاحبؒ کا اپنے موقف پر احادیث سے استدلال
احادیث کی روشنی میں شاہ صاحبؒ کی مصارفِ زکوة سے متعلق تحقیقی گفتگو
25:18 آیتِ صدقات میں "إنما کا حصر" حقیقی نہیں اضافی، آیات کے سیاق و سباق سے وضاحت، شاہ صاحب نے اس کا راز بیان کیا ہے۔
29:52 ائمہ ثلاثہؒ اور احنافؒ دونوں کے موقف میں فرق پر حضرت مفتی عبدالخالق رائے پوری مدظلہ کی مزید توضیح
32:14 حضرت محمد ﷺ اور آل محمدؐ کے لیے اس مال کے حرام ہونے کا راز اور چند وجوہات (شاہ صاحبؒ کی حدیث کی لاجواب تشریح)
33:12 پہلی وجہ: ملأ اعلیٰ میں ہر عمل کا ایک وجود تشبیهی، زکوة و صدقہ کا تشبیهی وجود میل کچیل کا ہے، ، نبی اکرم ﷺ نے ملاءِ اعلی میں اس کا مشاہدہ کیا اور سماحتِ نفس کی بنیاد پر اسے اپنے لئےحرام قرار دیا۔
42:56 بسا اوقات اولیاء اللہؒ و اہل مکاشفہ بھی کسی عمل کی ظلمت کا مشاہدہ کر لیتے ہیں
46:33 الفاظ کی تاثیر ان کے وجودِ تشبیہی کی سبب سے ہے، سائنس کی شہادت و گواہی
48:19 دوسری وجہ: بغیر معاوضہ و تبادلہ اور نفع رسانی کے (محنت کے بغیر حاصل کیے ہوئے) مال میں احترام باقی نہیں رہتا
50:40 نفوسِ عالیہ کا ذلت و رسوائی سے مال وصول کرنے سے اِباء، حضرت مولانا عبیداللہ سندھیؒ کا واقعہ
52:11 (اليد العليا خير من اليد السفلى) میں مذکورہ بے توقیری کا ذکر ہے۔
52:49 مفت خوری کا کسب و پیشہ ، دنیا کے تمام پیشوں میں بدترین پیشہ، دلی خوشی سے مال دینا ، معززین کا شعار اور جبر فی التبرع کا عدم جواز
55:53 تیسری وجہ: حضرت محمد ﷺ اور اہلِ بیت کے لیے زکوة و صدقات کے حرام ہونے کا ایک اور اہم راز
59:31 بھیک مانگنا انتہائی ذلت و رسوئی اور مروتِ انسانی میں شگاف ڈالنے کے مترادف، اس لیے حضور ﷺ نے اس کی سخت ممانعت فرمائی۔
1:00:34 عزتِ نفس کے ساتھ کوئی معزز آدمی بِن مانگے دے رہا ہو تو ھدیہ قبول کرنے میں کوئی حرج نہیں
1:02:00 اشد ضرورت (جان جانے کے اندیشہ) کے وقت سوال کرنے کی اجازت
1:05:47 حکمت کا تقاضا: رسول اللہؐ کا مختلف مثالوں (دو حدیثوں کا ذکر) کے ذریعے بھیک مانگنے سے منع کرنا
1:10:13 دونوں حدیثوں کا راز: سوال کرنے سے ذلت و رسوائی اور چہرے کی رونق ختم
1:12:28 مالدار ہونے کا معیار جس کی موجودگی میں سوال کرنے کی ممانعت ہے، احادیث میں تین مختلف اقوال، مختلف پیشوں کے اعتبار سے مالداری کی حد مقرر ہوئی ؛ شاہ صاحبؒ کی تطبیق اور جامع بات
1:20:16 پہلی حدیث: مانگنے میں اِلحاح و اصرار کی ممانعت، مال میں بے برکتی، حضورؐ کی بددعا (لا تلحفوا في المسألة، فوالله لا يسألني أحد منكم الخ) کا راز
1:24:10 دوسری حدیث: یہ مال بڑا میٹھا سرسبز، سخاوتِ نفس سے مال استعمال کرنے سے برکت اور اشرافِ نفس سے بے برکتی (إن المال خضر حلو فمن أخذه بسخاوة نفس بورك له فيه الخ) کی تشریح
1:27:36 برکت کی تعریف اور اس کی اقسام: ۱۔ مال پر اطمینانِ نفس اور دل میں ٹھنڈک ہو، ۲۔ چیز کا ایساصحیح استعمال کہ اس سے اس کا نفع و فائدہ بڑھ جائے۔
1:33:17 تیسری حدیث: مال میں عفت اختیار کرنے والے کو اللہ کی طرف سے پاکدامنی کا میسر آنا (من يستعفف يعفه الله الخ) کا پسِ منظر اور تشریح

پیش کردہ ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ ، لاہور ۔ پاکستان
https://www.rahimia.org/
https://web.facebook.com/rahimiainstitute/

پلے لسٹس
حُجّةُ اللّٰه البالِغة
وقت اندراج
جنوری 25, 2024