زمره
سوال
محترم مفتی صاحب! میں آپ سے ایک اہم مسئلے کے متعلق رہنمائی چاہتا ہوں! آج کل دنیا بھر میں کرپٹو کرنسی (Cryptocurrency) کا رجحان بہت بڑھ گیا ہے، جیسا کہ بٹ کوائن (Bitcoin)، ایتھیریم (Ethereum) وغیرہ۔ میرے سوال کا تعلق خاص طور پر سپاٹ ٹریڈنگ (Spot Trading) سے ہے۔ سپاٹ ٹریڈنگ میں طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ جب کسی کرنسی (مثلاً بٹ کوائن) کی قیمت کم ہو، تو اُسے خرید لیا جاتا ہے، اور جب اس کی قیمت بڑھ جائے تو اسے بیچ کر نفع حاصل کیا جاتا ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ:
1. کیا سپاٹ ٹریڈنگ شرعی طور پر جائز ہے؟
2. جب انسان بے روزگار ہو اور اس کے پاس آمدنی کا کوئی ذریعہ نہ ہو، تو کیا ایسی صورت میں کرپٹو ٹریڈنگ کو ذریعہ معاش بنانا جائز ہے؟
3. جبکہ پاکستان میں بھی اسے قانونی حیثیت دینے کی بات ہو رہی ہے، تو کیا اس کی شرعی حیثیت بدل سکتی ہے؟ براہ کرم تفصیلی شرعی رہنمائی فرمائیں۔
جواب
الجواب حامداً و مصلیاً و مسلماً
دین اسلام نے اپنے ہاتھ سے کمانے کو ترجیح دی اور ایسے تمام چور راستوں کی نفی کی جس میں دوسروں کو فریب دینا اور اپنے مال کو ہلاکت میں ڈالنے کے ساتھ ساتھ محنت کی عظمت بھی مجروح ہوتی ہو چنانچہ حضرت مقدام بن معدی کرب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اپنے ہاتھ کی کمائی سے بہتر کھانا کسی نے نہیں کھایا اور اللہ تعالیٰ کے نبی حضرت داؤد علیہ السلام اپنے ہاتھ کی کمائی سے کھاتے تھے۔(صحیح بخاری:۲۰۷۲)
کرنسی کا بنیادی مقصد تو خرید و فروخت میں بطور آلہ مبادلہ استعمال کے ہے چنانچہ ایک فطری نظام کے تحت اصل کرنسی تو سونا اور چاندی ہے جس کی بذات خود قدر و قیمت ہے اور موجود دور میں انٹرنیشنل نظام کے تحت اصل کرنسی کی ضمانت پر کاغذی کرنسی وجود میں آئی جس کا انسانی معاشروں میں تعامل پایا جاتا ہے جبکہ عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے تحت ڈیجیٹل کرنسی کے نام پر بٹ کوائن اور ایتھیریم وغیرہ کو محض سٹہ بازی کے لیے خرید لیا جاتا ہے اور اسی کے ساتھ بٹ کوائن وغیرہ کا کوئی مادی وجود بھی نہیں ہے اور نہ ہی انہیں کوئی قومی و بین الاقوامی ضمانت حاصل ہے بلکہ اس کے ذریعے انسانی معاشرے میں استحکام اور فائدے کے بجائے نقصان اور چند سرمایہ داروں کو فائدے پہنچانے کا امکان زیادہ ہوتا ہے بلکہ ایسا وقوع پذیر بھی ہوچکا ہے لہذا ایسی فرضی چیز جو نہ کرنسی کے معیار پر پورا اترتی ہے اور نہ ہی جائز تجارت کے اصولوں پر پورا اترتی ہے، اس میں سرمایہ کاری سے اجتناب کیا جائے،
(2) ایسی غیر واضح اور مشکوک جگہ کو ذریعہ معاش بنانا جائز نہیں جہاں قمیتوں میں بہت زیادہ اتار چڑھاؤ، غیر یقینی صورتحال، سٹہ بازی اور نقصان کا قوی اندیشہ رہتا ہے لہذا ایسی مہلک جگہ سرمایہ کاری کے بجائے حتی الامکان حلال کاروبار میں سرمایہ کاری کی سعی کی جائے،
(3)محض قانونی حیثیت دینے سے کسی چیز کی شرعی حیثیت نہیں بدلتی، تاوقتیکہ اس کے تمام پہلو شرعی تقاضوں پر پورا نہ اتریں لہذا اس وقت تک اس میں سرمایہ کاری سے گریز کیا جائے۔
فقط واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب