زمره
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے شرع اس بارے میں کہ ایک مشترکہ میراثی زمین تین افراد مثلا زید، عمرو اور بکر کے درمیان شریک تھی۔ ان میں سے زید اور بکر وفات پا گئے۔ عمرو نے اپنا حصہ فروخت کرنا چاہا اور اپنے بھتیجوں کو بتایا کہ میں اپنا حصہ فروخت کرنا چاہتا ہوں اگر آپ خرید لیتے ہیں تو خرید لیں ورنہ میں کسی اجنبی شخص پر فروخت کرتا ہوں۔ان میں سے زید کے بیٹوں نے عمرو کو کہا کہ ہم نہیں لیتے بلکہ عمرو کو اجازت دے دی کہ ہمارا حصہ بھی فروخت کرلو۔اور بکر کے بیٹوں نے کہا کہ ہم اپنا حصہ فروخت بھی نہیں کردیتے۔ اور باقی دونوں حصوں کو بھی خرید لینے یا نہ لینے میں ٹال مٹول سے کام لیا۔ ۔چنانچہ عمرو نے اپنا حصہ اور زید کے بیٹوں کا حصہ ان کی اجازت سے 2022/12/21ء کو ایک اجنبی شخص پر فروخت کیا۔اور بکر کے بیٹوں کا حصہ باقی رہ گیا۔ ابھی تقریبا تین سال بعد 2025ء میں بکر کے بیٹوں نے اعتراض اٹھایا کہ یہ بیع ہمیں نا منظور ہے اور ہم اس میں شفعے کے حقدار ہیں۔لیکن 1: زمین فروخت کرتے وقت بکر کے بیٹوں کو مطلع کیا گیا تھا۔ 2: عمرو نے اپنا حصہ اور زید کے بیٹوں کا حصہ فروخت کیا ہے اور بکر کے بیٹوں کا حصہ اپنی جگہ باقی ہے 3: جس شریک چچا ( عمرو) نے زمین فروخت کی ہے، عمر رسیدہ ہونے کے باعث ابھی اس کے حواس خراب ہوگئے ہیں ۔3:زمین فروخت ہونے کے وقت سے ابھی تک تقریبا تین سال گزر گئے ہیں۔ابھی سوال یہ ہے کہ کیا بکر کے بیٹوں کے لئے شفعے کی دعویداری کا حق باقی ہے ؟ یا ان کا حق ساقط ہوگیا ہے؟
جواب
الجواب حامداً و مصليا و مسلما
صورت مسئولہ میں جب عمرو نے اپنا اور زید کے بیٹوں کا حصہ فروخت کرنے سے پہلے بکر کے بیٹوں کو مطلع کیا تھا اور انہوں نے فروختگی کے علم ہونے کے باوجود شفعہ کا دعویٰ نہیں کیا تو تاخیر کی وجہ سے شرعی طور پر حق شفعہ ساقط ہوچکا، لہذا بکر کے بیٹوں کا حقِ شفعہ کا دعویٰ کرنا درست نہیں۔
فقط والله تعالىٰ اعلم بالصواب