زمره
سوال
ایک بنک کریڈٹ کارڈ پر 1 ماہ کے لیے 3 لاکھ قرض دیتا ہے۔
اگر رقم بروقت واپس کر دی جائے تو اس پر سالانہ یا ماہانہ کوئی چارجز وصول نہیں کیے جاتے۔
یہ قرض کیش کی صورت میں نہیں بلکہ کسی فرم سے کوئی چیز خریداری پر ملتا ہے۔
البتہ اگر اس کارڈ پر خریداری کی جائے تو اس صورت میں بنک 2% چارجز وصول کرتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ بنک آپ کو کیش نہیں دیگا بلکہ آپ کو شاپنگ کے لیے کریڈٹ ملے گا ۔
لیکن اب لوگ ایسا کرتے ہیں کہ جن کے پاس کریڈٹ مشین ہوتی ہے، تو ان کو 0.5 % یا 1% زیادہ دیکر کیش لے لیتے ہیں۔
اس طرح 1 ماہ بنک کی رقم استعمال کرتے ہیں اور آخری تاریخ کو بنک اکاونٹ میں رقم جمع کروا دیتے ہیں۔
کیا بنک کے ساتھ اس طرح کا لین دین کرنا جائز ہے؟
جواب
کریڈٹ کارڈ بھی دراصل سرمایہ دارانہ نظام کا ہی ایک شاخسانہ ہے جس کا بنیادی مقصد لوگوں کی ضروریات وحاجات پوری کرنا نہیں ، بلکہ اس کے نام پر اپنے استحصال کا فروغ اور سود کی وصولی ہے، واضح رہے کہ:
1- یہ قرض ہے اور قرض پر کسی بھی صورت میں اضافے کی شرط اسے سودی معاملہ بنادیتا ہے ۔
2ـ اضطراری حالت کے ساتھ کریڈٹ کارڈ کا مشروط استعمال ہوسکتا ہے ورنہ نہیں۔
3- اگر قرضہ منہا کرنے کا انتظام نہ ہو تو یہ احتیاط ضروری ہے کریڈٹ کارڈ سے خرید کردہ اشیاء کے جاری کردہ بلوں کی قیمت مقررہ مدت کے اندر ادا کردی جائے تاکہ ان پر سود لاگو نہ ہو سکے کہ سود کا ادا کرنا حرام ہے۔
4- عقود میں غیر شرعی شرط شرعاً باطل اور لغو شمار ہوتی ہے لہذا سود لاگو ہونے سے پہلے تک معاملہ باطل نہیں ہو گا۔ فقط۔
واللہ اعلم بالصواب۔