میراث کی تقسیم

زمره
وراثت
فتوی نمبر
0016
سوال

اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎

مفتیان صاحبان ایک مسٸلہ درپیش ہیں۔ میراث کے بارے میں اگر وضاحت کی جاۓ تو بڑی مہربانی ہوگی۔ مسٸلہ مندرجہ ذیل ہیں ۔

"ایک شخص ( امانی ملک ) وفات پاچکا ہے اور اسے ورثإ میں سے ایک بیوی ( بادشاہی نور ) تین بیٹے ( سلطانِ روم جہانِ روم اور مکرم خان ) اور دو بیٹیاں ( رواسیہ بی بی اور نبوت بی بی ) رہ چکے ہیں تو اس کے درمیان میراث کس طرح تقسیم ہوگا۔

نوٹ : یہ کہ مرحوم کے والدین پہلے وفات ہو چکے ہیں ۔ اور اس کے ساتھ ساتھ ایک بیٹی ( اویلو بی بی ) مرحوم امانی ملک کے وفات سے پہلے وفات پا چکی تھی

جواب

صورتِ مسؤلہ میں بعد از حقوق متقدمہ مترتبہ کی ادائیگی کے متوفیٰ امانی ملک کی میراث کے کل 64 حصے کئے جائیں گے۔ ان میں سے 8 حصے بیوہ بادشاہی نور کو، 14 ، 14 حصے برابر ہر بیٹے (سلطانی روم ،جہاں روم اور مکرم خان ) کو ، 7 حصے بیٹی رواسیہ کو اور نبوت بی بی کو از روۓ شریعت ملیں گے۔ 
جبکہ متوفیٰ کی فوت شدہ بیٹی اویلو بی بی ترکہ سے محروم ہوگی۔

فقط واللہ اعلم

مقام
سوات
تاریخ اور وقت
نومبر 14, 2023 @ 08:16صبح
ٹیگز
کوئی ٹیگ نہیں