واقعہ معراج کی تفصیلات

سوال

السلام علیکم ورحمۃاللّٰہ وبرکاتہ واقعہ معراج کی تفصیلات کیاہیں؟ نیز 27 رجب کی رات عبادت کرنے اور دن کو روزہ رکھنے کا از روئے شرع کیا حکم ہے؟

جواب

(1) رسول اکرمﷺ دنیا میں عالمگیر انقلاب کے لیے مبعوث ہوئے، اس آفاقی مقصد کے پیش نظر جب مکہ مکرمہ میں آپ نے دعوتی عمل کا آغاز کیا تو قریش مکہ کی جانب سے ایک شدید رد عمل سامنے آیا جس کی وجہ سے آپ اور آپ کے صحابہ کرامؓ سخت اذیت سے دوچار ہو رہے تھے۔ اسی مقصد کے پیش نظر آپ طائف تشریف لے گئے تو وہاں کے سرغنہ لوگوں نے نہ صرف آپ کی بات ان سنی کردی بلکہ شرپسندوں کو اشتعال دلاکر آپ کو سخت زخمی کروایا۔ واپسی پر مکہ میں داخلہ بھی اس شرط پر ملا کہ آئندہ آپ کی دعوت اہل مکہ کے لیے نہیں ہوگی۔ ظاہری سہاروں کے فقدان، طائف والوں کے ظلم و ستم اور سرداران قریش کے جبر و تشدد نے حضور اقدسﷺ کو سخت اذیت اور پریشانی میں مبتلا کر رکھا تھا تو اس پریشانی کا مداوا اور مستقبل کے حوالے سے رہنمائی کے لیے اللہ تعالی نے آپ کے لیے ایک بہت بڑے اعزاز کا اہتمام فرمایا جس کو ہم"واقعہ معراج" کہتے ہیں۔
اس سفر کے دو حصے ہیں ایک مسجد حرام تا مسجد اقصی جو "اسراء" کہلاتا ہے اور دوسرا مسجد اقصی سے آسمانوں کی بلندیوں تک کا سفر ہے جس کو "معراج" کہتے ہیں۔
احادیث میں اس واقعے کی جو تفصیلات آئی ہیں اس کا خلاصہ یہ ہے کہ حضور اقدسﷺ ایک رات امّ ہانی کے مکان پر استراحت فرما رہے تھے تو جبرائیل امین جنت سے ایک سواری لیکر حاضر ہوئے جسے براق کہتے ہیں آپ جبرائیل کے ساتھ براق پر سوار ہوکر بیت المقدس پہنچے جہاں تمام انبیاء و رسل نے آپ کی امامت میں نماز پڑھی، پھر وہاں سے آسمانوں کی سیر کے لیے تشریف لے گئے جہاں آپ نے جنت و دوزخ، سدرۃ المنتہیٰ اور ملاء اعلی کی سیاحت فرمائی۔ آسمانوں میں آپ ﷺنے مختلف انبیائے کرام حضرت آدم، حضرت یحییٰ، حضرت عیسیٰ، حضرت یوسف، حضرت ادریس، حضرت ہارون، حضرت موسیٰ، حضرت ابراہیم علیہم الصلوات والتسلیمات سے ملاقات فرمائی اس کے بعد آپﷺ کو قرب الٰہی کا وہ درجہ حاصل ہوا جس سے انسانی فہم و ادراک عاجز ہے اس کو خدا اور اس کا رسول ہی خوب جانتا ہے۔اس عظیم الشان سفر سے واپسی پر آپ کو امت کے لیے پانچ نمازوں کا تحفہ عطا ہوا جسے آپ نے معراج المؤمنین کہا ہے۔ اس مبارک سفر میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنی نشانیاں دکھلا کر اپنی حکمرانی کے اندرونی نظام کا مشاہدہ کرایا اور فطرت کے وہ راز اور کائنات کے وہ اسرار ظاہر فرمائے جو آج تک کسی پر ظاہر نہیں کیے گئے۔
معراج کے ذریعے رسول اللہﷺ کو یہ بات بتلا دی گئی کہ جبر و تشدد اور دباؤ کے باوجود آپ کا جو عالمگیر مشن ہے وہ غالب ہوکر رہے گا، اس کی ناکامی کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تو گویا کہ مستقبل کی حکمت عملی آپ کے سامنے آگئی۔ اس سفر کے بعد صحابہ کرامؓ کے حوصلے مزید بلند ہوئے اور مستقبل کے حوالے امکانات واضح ہوگئے کہ اللہ تعالیٰ جلد ہی اپنے رسولﷺ کو غلبہ عطا فرمائے گا۔ چنانچہ اسی سفر کے دوران آپ کا  گذر یثرب سے بھی ہوا جہاں آپ کو بتایا گیا کہ آپ نے ہجرت کرکے یہاں آنا ہے۔ ہجرت کے بعد آپ نے یثرب کو مدینہ بنایا اور وہاں ایک فلاحی ریاست کی بنیاد رکھی۔ آپ کے بعد آپ کی جماعت صحابہؓ نے آپ کے مشن کو آگے بڑھایا اور دنیا کی دو سپر طاقتوں (قیصر و کسری) کے فرسودہ نظاموں کو توڑ کر انسانی فطرت پر مبنی دین اسلام کے عالمگیر نظام کو دنیا میں غالب کیا۔
(واقعہ معراج کی مزید تفصیل کے لیے حضرت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی کی کتاب"سیرت رسول کریمﷺ" اور "قصص القرآن" ملاحظہ فرمائیں)

(2) روزے رکھنے اور عبادت کے لیے رجب کا پورا مہینہ ہی فضیلت والا ہے ، کوئی خاص دن مقرر نہیں۔ تخصیص و التزام کے بغیر جس قدر ہوسکے اس پورے مہینے میں روزہ رکھنے اور دیگر عبادات کا اہتمام کریں۔
رسول اللہ ﷺ   نے فرمایا کہ : ’’حرمت والے مہینے‘‘ (رجب، ذی القعدہ ، ذی الحجہ اور  محرم الحرام)  میں روزہ رکھ لیا کرو اور چھوڑ بھی دیا کرو۔ یہ بات تین مرتبہ ارشاد فرمائی، اور آپ ﷺ  نے اپنی تین انگلیوں سے اشارہ فرمایا، ان کو ساتھ ملایا پھر چھوڑ دیا، (یعنی کہ ان مہینوں میں تین دن روزے رکھو، پھر تین دن ناغہ کرو اور اسی طرح کرتے رہو۔)‘‘ (سنن أبی داؤد)
رسول اللہ ﷺ  (ماہِ رجب میں) روزے رکھا کرتے تھے، حتیٰ کہ ہم سمجھتے کہ آپ ﷺ  ناغہ نہیں فرمائیں گے، اور (بسا اوقات ماہِ رجب میں ) روزے نہ رکھتے، حتیٰ کہ ہم سمجھتے کہ آپ ﷺ  روزے نہیں رکھیں گے۔(صحیح مسلم)
فقط واللہ تعالی اعلم بالصواب

مقام
۔۔۔
تاریخ اور وقت
فروری 08, 2024 @ 01:16صبح