زمره
فتوی نمبر
سوال
چند ماہ پہلے ایک شخص نے اپنی بیوی کو ایک طلاق دی، لیکن بعد میں شوہر نے کہا کہ میرے الفاظ یہ تھے کہ ”میں تجھے طلاق دے دوں گا“۔ بیوی کو بھی یاد نہیں کہ اس نے کیا الفاظ استعمال کیے تھے۔ شوہر کے گھر والے بھی گواہی دے رہے ہیں کہ؛
”اس نے کہا تھا کہ میں طلاق دے دوں گا“۔
تو اب شوہر کے گھر والوں کی گواہی معتبر ہو گی؟ اور کیا یہ طلاق ہوگئی کہ نہیں؟
پھر دو دن بعد اسی شوہر نے اپنی بیوی کو کہا کہ؛
”اگر تم مجھ سے اتنا ہی تنگ ہو، تو میں تجھے آزاد کرتا ہوں، جاؤ میں تمھیں طلاق دیتا ہوں، جاؤ ایک اور طلاق دیتا ہوں۔“
بیوی اب ان الفاظ طلاق کے حوالے سے یقین رکھتی ہے اور اسے شوہر کے الفاظ مکمل یاد ہیں کیوں کہ کمرے میں اس وقت یہی دونوں تھے، کوئی اور نہیں تھا۔ جب کہ شوہر پھر کہہ رہا ہے کہ؛
”میں نے طلاق نہیں دی، میں نے تو بس طلاق کا لفظ استعمال کیا، دی نہیں تھی۔“
اب سوال یہ ہے کہ بیوی پر کتنی طلاقیں واقع ہوچکی ہیں؟
جواب
اگر واقعتًا شوہر نے بیوی سے یوں کہا کہ ”میں تجھے طلاق دے دوں گا“ تو یہ مستقبل کے الفاظ ہیں اور ان سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔ البتہ دو دن بعد شوہر نے جھگڑے کے دوران جب دوبارہ طلاق کے الفاظ استعمال کرتے ہوئے بیوی سے کہا کہ؛
”اگر تم مجھ سے اتنا ہی تنگ ہو، تو میں تجھے آزاد کرتا ہوں، جاؤ میں تمھیں طلاق دیتا ہوں، جاؤ ایک اور طلاق دیتا ہوں۔“
آخری دو جملوں سے بیوی پر دو طلاقیں واقع ہوگئیں۔ اس صورت میں اگر شوہر نے عدت کے دوران رجوع کر لیا تھا، تو وہ بطور میاں بیوی رہ سکتے ہیں۔ البتہ عدت گزرنے کے بعد نئے مہر کے ساتھ دو گواہوں کی موجودگی میں تجدید نکاح ضروری ہے۔ جب کہ پہلے جملے میں طلاقِ معلق کے الفاظ استعال کیے گئے ہیں، اس صورت میں اگر بیوی نے یوں کہا کہ؛
”ہاں میں تم سے اتنی ہی تنگ ہوں“
تو اس صورت میں تیسری طلاق بھی واقع ہوچکی اور ان دونوں کا میاں بیوی کے طور پر رہنا حرام ہے۔ جب کہ دوسری صورت میں صرف دو طلاقیں واقع ہوئیں ہیں۔
