زمره
حقوق و آداب معاشرت
فتوی نمبر
0094
سوال
جو بندہ اپنے محسن بڑے بھائی کو حرامی کہے اور ماں بہن کی غلیظ گالیاں بھی دے، ایسے بندے کے بارے میں اسلام کیا کہتا ہے؟ اور ایسے نا خلف سے کس طرح بچا جاسکتا ہے؟ کیا وہ ماں پر بدکرداری کی تہمت لگا کر اور باپ کو بے غیرت کہہ کر، ان کی وراثت کا حقدار بن سکتا ہے؟ باقی بہن بھائیوں کے سمجھانے کے باوجود وہ ہٹ دھرمی دکھائے، تو کیا باقی بہن بھائی اس کا بائیکاٹ کر سکتے ہیں؟
جواب
دین اسلام نے زبان کی حفاظت کا خصوصیت سے حکم دیا ہے۔ چناں چہ حدیث مبارکہ میں حضرت سہل ابن سعد سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: "میرے لیے جو شخص دونوں جبڑوں کے درمیان کی چیز (زبان) اور دونوں ٹانگوں کے درمیان کی چیز (شرمگاہ) کی ذمہ داری دے دے، میں اس کے لیے جنت کی ذمہ داری دے دوں گا۔"عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: مَنْ يَضْمَنْ لِي مَا بَيْنَ لَحْيَيْهِ، وَمَا بَيْنَ رِجْلَيْهِ أَضْمَنْ لَهُ الْجَنَّةَ.(صحیح البخاری، الحدیث: 6474)۔اسی طرح ایک اور حدیث کے مطابق مسلمان کو گالی دینا فسق اور کبیرہ گناہ ہے۔ چناں چہ حضرت عبد اللہ بن مسعود سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”مسلمان کو گالی دینا فسق ہے اور اس سے لڑنا کفر ہے"۔عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بنِ مَسْعُودٍ، قَالَ، قَالَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "سِبَابُ المُسْلِمِ فُسُوقٌ، وَقِتَالُهُ كُفْرٌ."(صحیح المسلم، الحدیث: 221)۔لہٰذا والدین یا بھائی یا بہن کو گالی دینا، حرامی کہنا یا ماں پر تہمت لگانا صریح کبیرہ گناہ ہے۔ ایسا شخص فاسق اور قابلِ مواخذہ ہے۔ اس پر سماجی دباؤ کی حکمت عملی کو مؤثر طریقے سے روبہ عمل لایا جائے، تاکہ وہ اپنی حرکتوں سے باز آئے، تاہم صرف فسق کی بنا پر وہ والدین کی وراثت سے محروم نہیں ہوگا۔ایسے شخص کو خاندان کے بزرگوں کے ذریعے سمجھانا چاہیے۔ اگر پھر بھی اصلاح نہ ہو تو اس کے شر سے بچنے اور تنبیہ کی نیت سے اس سے وقتی قطع تعلق (بائیکاٹ) جائز ہے، لیکن صلہ رحمی کو بالکل ختم کرنا جائز نہیں۔ ضروری تعلق مثلاً: سلام، تیمارداری یا حقوق کی ادائیگی باقی رکھنا واجب ہے۔واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
مقام
لاہور
تاریخ اور وقت
اگست 21, 2025 @ 04:01صبح
ٹیگز
کوئی ٹیگ نہیں