والدین پر خرچ کرنا

زمره
حقوق و آداب معاشرت
فتوی نمبر
0097
سوال

زید کے والد نے میری والدہ کے علاوہ دو شادیاں یعنی ٹوٹل تین شادیاں کی ہوئی ہیں۔ زید نے اپنی سگی والدہ کو مستقل اپنے پاس بیرون ملک رکھا ہوا ہے، جب کہ والد صاحب پاکستان میں رہائش پزیر ہیں۔ زید اپنے والد کو ماہانہ معقول خرچہ بھی دیتا ہے، لیکن والد کی دوسری دونوں بیویوں کے اخراجات بہت زیادہ ہیں، جس کی وجہ سے والد لوگوں سے قرضہ بھی لے لیتے ہیں اور پھر زید کو کہتے ہیں کہ یہ قرضہ تم اتارو، اس پر اگر زید انکار کرتا ہے تو اس کو بد دعائیں دیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا زید کو اپنے والد کا اس طرح کا قرض اتارنا چاہیے؟ اور اس سلسلے میں والد کا کہاں تک ادب کرنا چاہیے؟ کیوں کہ پیسوں کے چکر میں کافی تلخ کلامی بھی ہوجاتی ہے۔

جواب

​اللّہ تعالیٰ نے مرد کی "قوامیت" کا ایک سبب اس کا اپنی بیوی پر مال خرچ کرنے کو قرار دیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَى النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰهُ بَعْضَهُمْ عَلٰى بَعْضٍ وَّ بِمَاۤ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِهِمْ۞ (النساء: 34)

(مرد حاکم ہیں عورتوں پر اس واسطے کہ بڑائی دی اللہ  نے ایک کو ایک پر اور اس واسطے کہ خرچ کئے انہوں نے اپنے مال)۔
یہی وجہ ہے کہ شریعت نے بیوی کے نان و نفقہ کی ذمہ داری شوہر پر ڈالی ہے۔
جب کہ دوسری طرف قرآن حکیم  نے اولاد کو تلقین کی ہے کہ وہ جب بھی مال خرچ کریں تو سب سے پہلے اپنے والدین پر خرچ کریں۔ ارشادِ ربانی ہے:
یَسْــٴَـلُوْنَكَ مَا ذَا یُنْفِقُوْنَؕ-قُلْ مَاۤ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ خَیْرٍ فَلِلْوَالِدَیْنِ وَ الْاَقْرَبِیْنَ وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِؕ-وَ مَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ فَاِنَّ اللّٰهَ بِهٖ عَلِیْمٌ۞ (البقرۃ: 215)۔
(تجھ سے پوچھتے ہیں کہ کیا چیز خرچ کریں؟ کہہ دو کہ جو کچھ تم خرچ کرو مال سو ماں باپ کے لیے اور قرابت والوں کے اور یتیموں کے اور محتاجوں کے اور مسافروں کے اور جو کچھ کرو گے تم بھلائی سو وہ بیشک اللہ کو خوب معلوم ہے)۔
لہذا صورت مسئولہ میں والد پر لازم ہے کہ اپنی دونوں بیویوں (جو کہ زید کی سوتیلی مائیں ہیں) کے اخراجات کا بوجھ خود برداشت کرے۔ دوسری طرف زید پر بھی والد کا حق ہے کہ وہ اپنے گھریلو (اپنی سگی ماں اور اپنے بال بچوں کے ضروری) اخراجات کے بعد اپنے والد کی ذاتی ضروریات کا بھی اپنی استطاعت کے مطابق خیال رکھے کہ "انفاق فی سبیل اللہ" میں پہلی ترجیح والدین کو دی گئی ہے۔ بایں ہمہ اس مسئلے میں بلکہ کسی بھی صورت میں والد کے ساتھ تلخ کلامی کی اجازت نہیں ہے، کیوں کہ قرآن حکیم میں "اف" تک کہنے سے بھی منع کیا گیا ہے۔ (الإسراء: 23، 24)
واللہ أعلم بالصواب

مقام
Jhang
تاریخ اور وقت
اگست 17, 2025 @ 01:27شام