ادھار کی صورت میں قیمتوں میں اضافے کا حکم

زمره
بیوعات و معاملات
فتوی نمبر
0101
سوال

اگر کسی چیز کی قیمت نقد میں کم اور ادھار میں زیادہ ہو، مثلاً ایک گاڑی ایک قیمت پر فوری فروخت ہو اور زیادہ قیمت پر ادھار میں فروخت ہو، تو کیا یہ جائز ہے؟

جواب

ادھار کی صورت میں قیمت مارکیٹ کے عام ریٹ کے مطابق ہونی چاہیے، اس کو اتنا بڑھانا کہ غبن فاحش (یعنی قیمت میں اتنا زیادہ اضافہ یا کمی کر دینا جو ماہرینِ بازار کی عادتاً مقرر کردہ قیمت کے دائرے میں نہ آتا ہو) جائز نہیں ہے۔
​البتہ جائز ہونے کی بھی مندرجہ ذیل شرائط ہیں:
خرید و فروخت کے وقت یہ واضح اور معلوم ہو کہ چیز ادھار پر بیچی جا رہی ہے یا نقد،

نقد کی صورت میں کم قیمت یا ادھار کی صورت میں اضافی قیمت پر بیچنا ہو تو دونوں صورتوں میں سودا مکمل ہونے سے پہلے کوئی ایک قیمت مقرر کرلینا ضروری ہے۔
​3۔ ادھار کی مدت واضح اور متعین ہو، مثلاً کس سال، کس مہینے اور کس تاریخ کو قیمت ادا کی جائے گی۔
​4۔ معاملے میں یہ شرط رکھنا جائز نہیں ہے کہ ’’اگر وقت سے پہلے ادا کرو گے تو قیمت میں اتنی کمی ہوجائے گی، اور اگر دیر سے ادا کرو گے تو قیمت میں اتنا اضافہ ہو جائے گا‘‘۔ البتہ اگر بائع از خود بغیر کسی شرط کے قیمت میں کمی کرنا چاہے تو کر سکتا ہے۔ اس طرح کی شرط شرعاً ناجائز ہے، اور آج کل مارکیٹ میں جو عرف (طریقہ) رائج ہے کہ ادائیگی کے وقت کے لحاظ سے قیمت زیادہ یا کم کی جاتی ہے، وہ جائز نہیں ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب


مقام
دیر بالا
تاریخ اور وقت
جولائی 18, 2025 @ 07:02صبح