زمره
فتوی نمبر
سوال
مفتی صاحب! ایک انسان سے مختلف کفر اور گستاخیاں سرزد ہوئیں، جن میں سے کچھ اسے یاد ہوں اور کچھ بھول گیا ہو۔ جو یاد ہوں تو کیا توبہ میں ان کا خصوصی ذکر کیا جائے؟ مثلاً اس طرح کہے کہ: "یا اللہ مجھ سے جو فلاں کام ہوا، مَیں اس سے توبہ کرتا ہوں" یا پھر مجموعی طور پر اس طرح بھی توبہ ہو سکتی ھے کہ "یا اللہ مجھ سے جتنی کفریات اور گستاخیاں سرزد ہوئی ہیں، مَیں ان سب سے توبہ کرتا ہوں"۔ ان دونوں میں سے توبہ کا کون سا طریقہ اللہ کی بارگاہ میں مقبول ہوگا؟
جواب
قرآن حکیم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِؕ-اِنَّ اللّٰهَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًاؕ-اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ۞ (الزمر: 53)
"کہہ دے اے بندو میرے! جنہوں نے کہ زیادتی کی ہے اپنی جان پر, آس مت توڑو اللہ کی مہربانی سے۔ بیشک اللہ بخشتا ہے سب گناہ۔ وہ جو ہے وہی گناہ معاف کرنے والا مہربان ہے"۔
اسی طرح حدیث ہے کہ:
"التائب من الذنب کمن لا ذنب لہ"۔ (سنن ابن ماجہ: 4250)
(گناہ سے توبہ کرنے والا اس طرح ہے جیسا کہ اس نے گناہ کیا ہی نہ ہو)۔
صورت مسئولہ میں آپ سے جو گناہ اور کفریات سرزد ہوئی ہیں، ان کو دل میں یاد کرکے اور جو یاد نہ ہوں، ان کے لیے اجمالی طور پر اس طرح کہیں کہ: "میں نے اپنی پوری زندگی میں ان معلوم گناہوں اور کفریات کے علاوہ بھی جو گناہ اور کفریات کہے یا کیے ہیں، یااللہ! یا غفور رحیم! ان سب کو اپنے رحم و کرم سے معاف فرما!" اللہ تعالیٰ سے امید رکھنی چاہیے کہ وہ اپنے فضل و کرم سے ان تمام گناہوں کو معاف فرما دے گا۔
نیز توبہ کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اپنی پوری شرائط و آداب کے ساتھ ہو کہ:
الف۔ جو گناہ کیا ہے اس پر دل سے پشیمان ہو،
ب۔ فوری طور پر اس گناہ سے باز آجائے،
ج۔ اور آئندہ کے لیے اس گناہ کو نہ کرنے کا پختہ عزم ہو۔
البتہ اگر کسی گناہ کا تعلق حقوق العباد سے ہو تو وہ صرف توبہ و استغفار سے معاف نہیں ہوگا، بلکہ صاحبِ حق کو اس کی رضامندی سے اس کا حق ادا کرنے کے بعد اللّہ تعالیٰ کے حضور توبہ کرنا ہوگی۔