زمره
فتوی نمبر
سوال
اگر دنیا کی کوئی حیثیت نہیں تو پھر اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کو کیوں پیدا کیا؟
جواب
"دنیا کی کوئی حیثیت نہیں" کا یہ مطلب نہیں کہ ہم اپنے تخلیقی مقصد اور سماجی ذمہ داریوں سے راہِ فرار اختیار کریں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کی زندگی آخرت کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتی کہ آدمی اس فانی دنیا کی تعیّشات اور سرمایہ پرستی میں فنا ہو کر اپنی دائمی اور اخروی زندگی سے کٹ جائے، اور اس طرح اللہ تعالیٰ سے تعلق فراموش کر کے اپنی ترقی کا راستہ نہ کھو بیٹھے۔
حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: ”مجھے دنیا سے کیا مطلب ہے! میری اور دنیا کی مثال ایسی ہے جیسے ایک سوار ہو جو ایک درخت کے نیچے سایہ حاصل کرنے کے لیے بیٹھے، پھر وہاں سے کوچ کر جائے اور درخت کو اسی جگہ چھوڑ دے“۔ (ترمذی، حدیث: 2377)
اس کا مطلب واضح ہے کہ انسان اس دنیا کے وسائل سے اپنی ضروریات پوری کرے اور اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ بر آ ہو۔ اور جس طرح ایک مسافر اپنی اگلی منزل کی تیاری میں ہوتا ہے، اسے بھی اس لحاظ سے تیار رہنا ہے۔
جب کہ حضور ﷺ کی سماجی سرگرمیوں میں مصروفیات کے پہلو سے تو اس دنیا کی زندگی اہم معلوم ہوتی ہے۔ اسی طرح قرآن حکیم بھی ہمیں دنیا اور آخرت، دونوں کو بہتر بنانے کی دعا سکھلاتا ہے۔
اللّٰہ تعالٰی نے یہ دنیا اس لیے بنائی، تاکہ انسان اس دنیا کی نعمتوں سے بہرہ ور ہو اور عبادت کے ذریعے اللہ کی صفات کا مظہر بنے۔ اللہ تعالیٰ خالق، مالک ، رحمان اور رحیم ہے۔ اگر کوئی مخلوق نہ ہوتی تو خالق ہونے کا مطلب کیسے سمجھا جاتا؟ اسی طرح رحمان اور رحیم کی صفت کا ادراک کیسے ہوتا؟
حضرت امام شاہ ولی اللہ رحمۃ اللّٰہ علیہ اپنی معرکۃ الآرا کتاب "حجۃ اللہ البالغہ" میں فرماتے ہیں کہ: "کائنات محض ایک حادثاتی وجود نہیں بلکہ حکمتِ الٰہی کے تحت ایک مقصد کے لیے تجلیاتِ الٰہی سے وجود میں آئی ہے۔ اس کا یہ پہلو اللہ تعالیٰ کی صفت تدبیر سے متعلق ایک منظم نظام کا حصہ ہے، جس کا مقصد زمین کی حفاظت اور عدل کا قیام ہے"۔
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب