وراثت کا حق موت کے بعد قائم ہوتا ہے

زمره
وصیت و میراث
سوال

​میرے دادا کے تین بیٹے اور ایک بیٹی ہے، جن میں سے میرے والد میری پیدائش سے دو ماہ پہلے وفات پا گئے۔ دادا اس وقت تک حیات تھے۔ وہ اپنی وفات سے پہلے وراثت دو بیٹوں کے نام کر گئے۔ کیا شریعت کے حساب سے میرا حصہ بنتا ہے؟مہربانی فرما کر میرے اس مسئلے کا حل بتا دیں۔

جواب

​​الجواب حامداً و مصلياً و مسلماً
شرعی اصول یہ ہے کہ وراثت کا حق موت کے بعد قائم ہوتا ہے، زندگی میں نہیں لہٰذا آپ کے والد چونکہ آپ کے دادا کی حیات میں ہی وفات پا چکے تھے، اس لیے وہ دادا کی میراث کے حق دار نہیں بنے اور چونکہ بیٹا خود وارث نہیں بنا، اس لیے بیٹے کی اولاد (یعنی آپ) بھی شرعی طور پر دادا کی میراث میں حصہ دار نہیں بن سکتیں۔
فقہائے کرام نے صراحت کی ہے کہ:
"إذا كان للميت ابنٌ أو ابن ابنٍ أقرب، لم يرث ابن الابن البعيد"
(یعنی اگر میت کے بیٹے موجود ہوں تو پوتے، پوتیاں وارث نہیں بنتے)
(الاختيار لتعليل المختار، کتاب الفرائض، باب العصبة، ج: 4، ص: 172، دار المعرفۃ بیروت)
البتہ اگر دادا مرحوم اپنی زندگی میں اپنے پوتے یا پوتی (یعنی آپ) کو کچھ مال ہبہ (تحفہ) کے طور پر دے دیتے، یا وصیت کر جاتے تو شرعاً یہ بالکل درست ہوتا، اور دادا کے لیے باعثِ ثواب بھی۔
نیز اگر دادا نے اپنی جائیداد صرف دو زندہ بیٹوں کے نام کر دی اور دیگر ورثاء (مثلاً بیٹی) کو محروم کر دیا، تو یہ عمل شرعاً درست نہیں۔ زندگی میں کسی کو بھی مال دینا ہو تو برابری و عدل کے ساتھ دینا چاہیے۔
دادا کے ان دونوں بیٹوں کو چاہئے کہ وہ صلہ رحمی سے کام لیں اور اپنی بہن (اگر وہ حیات ہے، بصورت دیگر) اس کی اولاد اور اپنے بھتیجے کی دلجوئی کریں اور ان کے ساتھ حسن معاملہ کا مظاہرہ کریں کہ اسلام کی تعلیمات عدل واحسان پر مبنی ہیں اور اللہ تعالیٰ کے ہاں اپنے مرحوم والد کو شرمندگی سے بچنے کا موقع دیں، قرآن نے ورثاء کو یہ ہدایت کی ہے کہ وہ تقسیم وراثت کے موقع پر دیگر اقربا اور یتیموں اور مسکینوں کا بھی خیال رکھیں اور ان سے معقول گفتگو کریں (النساء، آیت ۸)
فقط واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب​​

مقام
بھوانہ
تاریخ اور وقت
جولائی 29, 2025 @ 02:51شام
ٹیگز
کوئی ٹیگ نہیں