زمره
وصیت و میراث
سوال
ایک عورت مسمات زبیدہ کا انتقال ہوا، اس کے قریبی رشتہ داروں میں صرف بھتیجے، بھتیجیاں اور بھانجے، بھانجیاں موجود ہیں۔ اب دریافت طلب امر یہ ہے کہ مسمات زبیدہ کی وفات کے بعد اُن کی چھوڑی ہوئی زرعی زمین کی شرعی وراثت کس کو ملے گی؟ کیا صرف بھائی کی اولاد (7 بھتیجے اور 4 بھتیجیاں) وارث ہوں گے؟ یا بہن کی اولاد (4 بھانجے اور 2 بھانجیاں) بھی وراثت میں شامل ہوں گے؟ اگر دونوں شامل ہوں گے تو کس تناسب سے جائیداد تقسیم ہوگی؟
جواب
الجواب حامداً و مصلیا و مسلماصورتِ مسئولہ میں مرحومہ کے حقوق متقدمہ (تجہیز و تکفین کا خرچہ، مرحومہ پر کوئی قرض ہو تو اس کی ادائیگی اور اگر مرحومہ نے کوئی جائز وصیت کی ہے تو بقیہ ترکہ کے ایک تہائی میں اسے نافذ کرنے کے بعد) مرحومہ کے کل ترکہ کے سات حصے کریں گے ان میں سے ہر بھتیجے کو ایک ایک حصہ ملے گا۔ نیز بھتیجے چونکہ عصبات ہیں اور بھتیجیاں، بھانجے اور بھانجیاں ذوی الارحام شمار ہوتے ہیں اور عصبات کی موجودگی میں ذوی الارحام حصہ دار نہیں ہوتے۔ تاہم وہ شریعت کے مطابق صلہ رحمی ، حسن سلوک اور تعاون کے مستحق ہیں. قرآن حکیم میں ورثاء کو یہ ہدایت کی گئی ہے کہ وہ تقسیم وراثت کے موقع پر دیگر اقربا اور یتیموں اور مسکینوں کا بھی خیال رکھیں اور ان سے معقول گفتگو کریں (النساء آیت 8)۔ اس آیت کی تفسیر میں شیخ الہند مولانا محمود حسن فرماتے ہیں کہ تمام قرابت والے درجہ بدرجہ سلوک اور مراعات کے مستحق ہیں اور یتامی اور مساکین بھی اور جو قریب، یتیم یا مسکین بھی ہو تو اس کی رعایت اور بھی زیادہ ہونی چائیے۔ اس لئے تقسیم میراث کے وقت ان کو حتی الوسع کچھ نہ کچھ دینا چائیے، اگر کسی وجہ سے وارث نہ ہو تو حسن سلوک سے محروم نہ رہیں۔فقط واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
مقام
ٹھارو شاہ
تاریخ اور وقت
مئی 31, 2025 @ 03:44شام
ٹیگز
کوئی ٹیگ نہیں