حرف "ض" کا درست مخرج اور غلط ادائیگی کے سبب نماز کا حکم

زمره
تفسیر و تلاوتِ قرآن
سوال
حرف "ض" کا درست مخرج کیا ہے؟ اکثر بریلوی حضرات اس کو پُر دال کے مشابہ جبکہ دیوبندی حلقوں میں اس حرف کو ظاء کے مشابہ پڑھا جاتا ہے تو کیا "ض" کو "دال" کی طرح یا "ظاء" کی طرح پڑھنے سے معنی میں تبدیلی آتی ہے؟ کیا ایسی ادائیگی کے ساتھ نماز درست ہو جائے گی؟ اس بارے میں شرعی وضاحت فرمائیں۔
جواب
الجواب حامداً و مصلیاً و مسلماًواضح رہے کہ قرآنِ مجید کی صحیح تلاوت، تجوید و مخارج کے مطابق حروف کی ادائیگی، فرض ہے، خصوصاً نماز میں جب قراءت واجب ہوتی ہے۔ حرف "ضاد" (ض) کا مخرج حافۃ اللسان (زبان کی کروٹ) اور اضراس علیا (اوپری داڑھوں) کے کنارے ہیں۔ (اس کی درست ادائیگی کے لیے کسی ماہر فن قراءت سے رابطہ کر لیا جائے). "ضاد" کو دال یا ظاء کے مشابہ پڑھنا ادائیگی میں غلطی شمار ہوتا ہے، اس کو "لحن" کہا جاتا ہے جو کہ جان بوجھ کر کی جائے تو لحنِ جلی ہے، اور اس سے نماز فاسد ہونے کا اندیشہ ہے۔لہذا صورت مسئولہ میں اگر کوئی شخص ضاد کو قصداً دال یا ظاء کے مشابہ پڑھے، حالانکہ وہ صحیح مخرج سے ادا کرنے پر قادر ہو، تو اس کی نماز فاسد ہو جائے گی، کیونکہ اس نے کلام الٰہی میں تحریف کی ہے۔اگر کوئی شخص عدمِ مہارت یا زبان کی کمزوری کی بنا پر "ضاد" کو "ظاد" یا "داد" یا اس کے قریب پڑھے، لیکن سیکھنے کی کوشش میں ہو، تو ایسی صورت میں نماز ہو جائے گی، بشرطیکہ معنی بالکل تبدیل نہ ہو، اور تلفظ کے درست کرنے کی مسلسل کوشش کی جا رہی ہو۔فقط واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
مقام
جیکب آباد
تاریخ اور وقت
مئی 28, 2025 @ 04:29شام
ٹیگز
کوئی ٹیگ نہیں