قومی آزادی کا حقیقی تصور اور تقاضے

30 اگست 2024 کی سہ پہر ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ (ٹرسٹ) لاہور کی بالاکوٹ (مانسہرہ) شاخ کے زیر اہتمام ”قومی آزادی کا حقیقی تصور اور تقاضے“ کے عنوان سے ایک شعوری سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔
اس سیمینار کے مہمان خصوصی حضرت اقدس شاہ مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری مدظلہ العالی (ناظم اعلی ادارہ رحیمیہ و مسند نشین خانقاہ عالیہ رحیمیہ رائے پور) تھے۔ اس سیمینار کے مہمان مقرر پروفیسر ڈاکٹر مفتی سعید الرحمن اعوان مدظلہ (سر پرست ادارہ رحیمیہ)تھے جب کہ ادارہ رحیمیہ کے ڈائریکٹر ایڈمن حضرت مولانا مفتی مختار حسن مدظلہ نے بطور مہمان اعزازی شرکت فرمائی۔
اس سیمینارکی صدارت ڈاکٹر عاشق حسین نے فرمائی۔ نظامت کے فرائض جناب محمد حنیف نے ادا کئے جبکہ تلاوت کلام پاک کی سعادت قاری محمد شکیل نے حاصل کی۔
موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے مہمان مقرر حضرت ڈاکٹر مفتی سعیدالرحمان اعوان مدظلہ نے فرمایا کہ ”آج ہم جس تاریخی مقام پر جمع ہیں یہ سرزمین شہدائے بالاکوٹ کے نام سے مشہور ہے۔ سید احمد شہید اور شاہ اسماعیل شہید رحمۃ اللہ علیہما نے اپنے ساتھیوں سمیت اس  خطے کے انسانوں کے لئے حقیقی آزادی کے لئے بلا تفریق رنگ نسل اور مذہب جنگ  لڑی اور اپنی جان قربان کی“ ۔
آپ کا کہنا تھا کہ ”آج کا سب سے بڑاالمیہ یہ ہے کہ 77 برس پہلے جو ہم نے آزادی حاصل کی تھی، ملک پر مسلط سرمایہ داری نظام کی وجہ سے آج بھی ہم اس آزادی کے حقیقی ثمرات سے محروم ہیں۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے ملک پر مسلط نظام ترقی کا سب سے بڑا دشمن ہے۔
اس نظام سرمایہ داری سے آزادی کے بغیر ہمارے ملک میں ترقی اور خوشحالی پیدا نہیں ہو سکتی۔ اس کے لئے اولین ضرورت اس بات کی ہے کہ سب سے پہلے ذہنی آزادی حاصل کی جائے۔ ہمارے دل ودماغ میں حقیقی آزادی کا شعور پیدا ہو۔ جدوجہد آزادی کے حقیقی راہنماؤں کا تعارف حاصل کیا جائے جنھوں نے اس خطے میں انسانی حقوق کی عظیم الشان جنگ لڑی“۔ آپ نے فرمایا کہ ”اس علاقے پرتو یہ قرض آج بھی موجود ہے کہ وہ ان شہدائے بالاکوٹ کے مشن کو جاری رکھیں“۔
دین اسلام کی جامع تعلیمات پر گفتگو کرتے ہوئے آپ کا کہنا تھا کہ ”دین اسلام اپنے پیشں کردہ نظام زندگی کی بدولت انسانوں کو دونوں جہانوں میں کامیاب کرنا چاہتا ہے“۔آپ نے فرمایاکہ ”دین اسلام میں کسی اور سسٹم کی تعلیمات کی پیوندکاری نہیں کی جاسکتی اس کے لئے مستقل نظام قائم کرنے کی ضرورت ہے۔اسی لئے تمام انبیاء علیہم السلام اپنے اپنےادوار میں سب سے پہلے رائج ظالمانہ نظاموں سے آزادی حاصل کرنے کی بات کرتے ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب دنیا میں تشریف لائے تو اس وقت قومی طور پر ابوجہل ، عتبہ ، ابولہب کا نظام اور اجارہ داری تھی اور بین الاقوامی طور  پر دنیا قیصر و کسری کے ماتحت تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلے جوفکر ان کے سامنے پیش کیا وہ دنیا اور آخرت کی کامیابی اور قومی اور بین الاقوامی غلبے کاتھا۔ 
اس لئے ریاست مدینہ اور فتح مکہ کی صورت میں ابتدائی طور پر قومی نظام قائم ہوا اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں قیصرو کسری کی شکست کے نتیجے میں دین اسلام کا بین الاقوامی نظام قائم ہوا“۔
آخر میں آپ کا کہنا تھا کہ ”آج اگر ہم اپنی قوم کا جائزہ لیں تو ہم سیاسی ، معاشی اور فکری طور پر آزاد نہیں۔آج بھی ہمارا نظام اسی انگریز دور کے نظام کا تسلسل ہے۔ اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اس استحصالی نظام کے خاتمے اور دین اسلام کے سسٹم کے قیام کے لئے عدم تشدد کی اساس پر فکری، شعوری، علمی اور عملی جدوجہد کریں تاکہ ہم بھی بطور قوم ترقیات کی اعلیٰ منازل سے ہم کنار ہوسکیں“۔
سیمینار کے تکمیلی کلمات ارشاد فرماتے ہوئے مہمان خصوصی حضرت اقدس شاہ مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری مدظلہ کا کہنا تھا کہ”برعظیم پاک وہند میں حضرت الامام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ سے لے کر امام انقلاب مولانا عبیداللہ سندھی تک جس سچی جماعت نے دین اسلام کے غلبے اور حصول آزادی کے لیے کام کیاہے آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ان برگزیدہ ہستیوں کے نقش قدم پر چل کر سوسائٹی کی تعمیروترقی کے لئے ایک مثبت اور تعمیری جدوجہد کریں“۔

رپورٹ: چوہدری چن زیب ۔ (بالاکوٹ)