قومی آزادی و حریت کا دینی تصور اور عصر حاضر کے تقاضے

28 اگست 2024ء بروز بدھ ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ (ٹرسٹ) لاہور کی اوگی (مانسہرہ) شاخ کے زیراہتمام گورنمنٹ ہائی اسکول اوگی کے وسیع و عریض ہال میں " قومی آزادی و حریت کا دینی تصور اور عصر حاضر کے تقاضے" کے عنوان  سے ایک شعوری سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔ اس سیمینار کے مہمانِ خصوصی ادارہ رحیمیہ کے سرپرست حضرت مفتی ڈاکٹر سعیدالرحمٰن اعوان مدظلہ تھے۔ سیمینار کی صدارت  ادارہ رحیمیہ کے زونل کوآرڈینیٹر جناب محمد خالد نے کی۔ نظامت کے فرائض مولانا فضل ہادی نے انجام دیے۔ نعت رسول مقبول ﷺ کی سعادت جناب فضل مالک نے حاصل کی جب کہ جناب محمد اسلام کی تلاوت کلام پاک سے سیمینار کا آغاز کیا گیا۔
موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے مہمان خصوصی نے فرمایا کہ "دین اسلام بنیادی طور پر دینِ انسانیت ہے۔ اس انسان کو اللہ پاک نے تمام مخلوقات سے اعلیٰ قرار دیا"۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے: ترجمہ "ہم نے آدم کی اولاد کو بڑی عزت عطاکی"۔ اس لئے انسانیت کی تکریم اس بات میں ہے کہ وہ اس دنیا میں اللہ احکامات کے تحت زندگی بسر کرے۔ کیونکہ جب وہ ایسا کرے گا تو دنیا کی ہر چیز کی غلامی کا انکار کرے گا۔ وہ اللہ کے علاوہ کسی کا غلام نہیں بن سکتا اور توحید کا تقاضا  بھی یہی ہے کہ وہ ایک اللہ پاک کی ذات اور اللہ پاک کی صفات میں کسی کی شراکت کا مکمل انکار کرے۔ بندگی میں اللہ تعالیٰ کی ذات کے علاوہ کسی اور کی شراکت نہیں ہو سکتی۔ کسی کی غلامی اگر ہم قبول کرتے ہیں توگویا ہم نے توحید کا انکار کیا۔ یاد رکھئے!اللہ کی بندگی میں کسی اورکی شراکت دراصل توحید کا انکار ہے"۔
اپنے خطاب میں آپ کا کہنا تھا کہ " توحید کا بنیادی پیغام یہ ہے اس ذات باری تعالیٰ کے علاوہ ہر قسم کی غلامی کا انکار کردیا جائے۔ اس وجہ سے جب ہم کلمہ پڑھتے ہیں تو ہم یہ کہتے ہیں کہ ہم نےاللہ کے علاوہ کسی اور کی ذہنی غلامی نہیں کرنی۔ اس لحاظ سے ذہنی طور پر ایک آزاد فرد سماج میں باطل طاقتوں کے قائم کردہ ہر جبر کے خلاف جدوجہد کرتا ہے خواہ وہ جبر اس کی سیاست میں ہو،معیشت میں ہو،معاشرت میں ہو یا تعلیم میں ہو۔ ظلم اور جبر کے خلاف یہ جدوجہد اس کے دینِ اسلام پر ایمان کا بنیادی تقاضا ہے"۔ آپ نے مزید فرمایا کہ "رسول اللہ ﷺ نے اسی لئے دین اسلام اور نظریہ توحید کی دعوت دینے کے بعد اپنے ماننے والوں کو یہ خوش خبری سنائی کہ اس دعوت کو قبول کرنے کے نتیجے میں انہیں دنیا و آخرت کی کامیابی اور قومی و بین الاقوامی غلبہ عطا کیا جائے گا''۔
اپنے خطاب کے آخر میں مہمان خصوصی کا یہ کہنا تھا کہ "دینِ اسلام کے غلبے کی تاریخ کی جس کا دورانیہ ہزار بارہ سوسال تک رہا، جس کی وجہ سے دنیا میں آزادی، عدل، امن اور خوش حالی پیدا ہوئی، لیکن جب دین کا یہ پیغامِ آزادی ہماری نظروں سے اوجھل ہوا تو ہم برطانوی استعمار کے ظالمانہ نظام کے غلام ہوگئے۔ آج سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ قیامِ پاکستان کے 76 سال گزرنے کے باوجود نو آبادیاتی دور کا وہی عدالتی، صنعتی،تعلیمی، معاشی ومعاشرتی نظام آج بھی نافذالعمل ہے جس کی اساس ذہنی غلامی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا نوجوان ان حالات سے مایوس ہوکر ترکِ وطن کی راہیں تلاش کرنے پر مجبور ہے۔ ایسے میں ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارا نوجوان راہ فرار اختیار کرنے کی بجائے دینِ اسلام کے تصورِ آزادی کو سمجھے، ہر قسم کی جذباتیت اور اشتعال انگیز رویوں سے دست کش ہوکر عقل و شعور کے ساتھ عدمِ تشدد پر کاربند رہتے ہوئے، دینِ اسلام کے اعلیٰ تصورات پر سماجی تشکیل نو کا ایک تعمیری و مثبت راستہ اختیار کرے"۔
 رپورٹ: محمد سعید (اوگی – مانسہرہ)