پاکستان میں معاشرتی استحکام کے لیےسماجی جدوجہد کی ضرورت واہمیت

11 اگست 2024ء بروز اتوار شام 5:00 بجے، ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ ٹرسٹ لاہور کے زیراہتمام بورے والہ میں ایک دعوتی سیمینار کا انعقاد کیا گیا جس کا موضوع "پاکستان میں معاشرتی استحکام کے لیےسماجی جدوجہد کی ضرورت واہمیت"  تھا ۔

سیمینار کے لیے پلیٹ فارم کا انتخاب جامعہ نعمان بن ثابت کیا گیا جس کی مہتمم شخصیت شیخ الحدیث وتفسیر حضرت مولانا مفتی عبدامتین نعمانی (صدر ادارہ رحیمیہ علومِ قرآنیہ) ہیں۔

سیمینار کے مہمانِ خصوصی حضرت اقدس مولانامفتی شاہ عبدالخالق آزاد رائےپوری (ناظمِ اعلیٰ ادارہ رحیمیہ، مسند نشیں خانقاہِ عالیہ رحیمیہ رائے پور) تھے۔ سیمینار کی نظامت کے فرائض جناب مقصودجمیل(زونل اکیڈمک ایڈمنسٹریٹر) نے انجام دئے اور اس پروگرام کی صدارت  حضرت مفتی عبدالمتین نعمانی صاحب نے فرمائی۔

سیمینار کا آغاز تلاوتِ قرآن حکیم سے کیاگیا جس کی سعادت  قاری ابوسفیان نے حاصل کی۔ناظمِ اجلاس نےادارہ رحیمیہ اور حضرتِ اقدس کامختصرتعارف حاضرین کے سامنے پیش کیا۔

ازاں بعد سیمینار کے مہمانِ خصوصی حضرتِ اقدس نے "پاکستان میں معاشرتی استحکام کے لیےسماجی جدوجہدکی ضرورت واہمیت" کے موضوع پر راہنمائی فرمائی۔

موضوع پر گفتگو کرتے ہوے حضرتِ اقدس نے پاکستانی اداروں کی زبوں حالی کی وضاحت کی اور اِس کے اسباب کی طرف توجہ دلائی۔ حضرتِ والا نے فرمایا کہ، "آج 76سال گزرنے کے بعد بھی پاکستان بدحال ہے۔ ہمارا سسٹم ایک کینسر کی صورت اختیار کر چکا ہے اوراس کے مکمل علاج کی ضرورت ہے۔ انگریز سے آزادی حاصل کر لینے کے بعد ہمارا سیاسی و معاشی نظام آزادانہ بنیادوں پہ تشکیل نہیں دیا گیا جس کی وجہ سے ہمیں سامراج کی ڈکٹیشن پہ چلنا پڑتا ہے اور ہمارا نوجوان بھی سامراجی سسٹم کی چال بازیوں کے سحر میں جکڑا ہوا اور اپنے حقیقی مرض کو پہچاننے سے قاصر نظر آتاہے۔"

حضرتِ اقدس نے مکڑی کے جالے کی مثال دیتے ہوئےسمجھایا کہ اگر کوئی کیڑامکوڑا مکڑی کے جالے میں پھنس جاۓ تو وہ جالے سے نکلنے کے لیے جتنے بھی ہاتھ پاؤں مارے گا، نکلنے کے بجاۓ مزید اس جالے میں پھنستا چلا جائے گا۔ یہی حال ہمارے معاشرے کا ہو چکا ہے۔ جب پاکستان بنا تھا تو 10000 پونڈ کا مقروض تھا اور آج اربوں کھربوں کا مقروض ہے۔

حضرتِ اقدس نے فرمایا کہ ، "ہمارے قومی ادارے آج بھی برطانوی قوانین پر عمل کررہے ہیں۔ اسی طرح تعلیمی اداروں پر بھی گفتگو کی کہ وہ ادارے بھی چاہےسکول،کالج،یونیورسٹی ہوں یا ہمارے مذہبی مدارس ہوں،نوجوان کو حقیقی آزادی اور ریاست مدینہ کے سیاسی اور معاشی علوم پڑھانے سے قاصر نظر آتے ہیں۔ان اداروں سے فارغ التحصیل طلبا اسلام کے سیاسی معاشی عدالتی نظام سے لاعلم ہوتے ہیں۔ مدارس میں سیاسیات اور معاشیات پڑھائی نہیں جاتی۔ کالج یونیورسٹی میں کیپٹل ازم،سوشل ازم پڑھایاجاتا ہے۔

آخر میں حضرتِ اقدس نے پاکستان کے نوجوان کی ان ذمہ داریوں کی طرف نشاندہی کرتے ہوئے فرمایا کہ، "جب تک نوجوان سماجی تبدیلی کی سائنس کا سیرت نبوی ﷺ، صحابہ کرام اور بعد کے اپنے شان دار ماضی (بنو امیہ، بنو عباس یا بنو عثمان) کے نظاموں کا مطالعہ نہیں کرے گا، سماجی تبدیلی کی سائنس کو سمجھنے سے قاصر رہے گا اوراپنے سماج کو سامراج کی غلامی سے نہیں نکال سکے گا۔ اور یہ سارا عمل قوموں کی زندگی کی ترقی و کامیابی کی بنیاد ہے۔"

موضوع کےآخر میں دعاسے پہلے سٹیج سیکرٹری کی طرف سے شرکاء سیمینار کے لیے ریفریشمنٹ کااعلان کیاگیا۔ سیمینار کااختتام حضرت اقدس نے دعا سے فرمایا۔

مذکورہ سیمینار میں علاقے کے معززین کے علاوہ کالجز، یونیورسٹیز اور مدارس کے طلباء کی کثیر تعداد نے شرکت کی اور سیمینار میں دی جانے والی شعوری راہنمائی کو سراہا۔

رپورٹ:حافظ مظفر اقبال،بوریوالہ