مورخہ 5اپریل 2025,بروز ہفتہ ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ( ٹرسٹ ) لاہور کے زیر اہتمام" یوریشن سکول سسٹم " کانجو (سوات) میں ایک عظیم الشان سیمینار بعنوان "دین کے اجتماعی نظام میں عبادات کی اہمیت اور اس کے اجتماعی تقاضے " منعقد ہوا۔ مہمان خصوصی مولانا مفتی محمد مختار حسن (صدر انتظامیہ ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ لاہور) تھے۔
سیمینار کی صدارت جناب نور رحمان کا کا نے فرمائی جب کہ پروفیسر ریاض احمد اور محترم سلطان رشاد نے بطور مہمانِ اعزای شرکت کی۔ قاری عزیز الرحمان نے تلاوت کی سعادت حاصل کی اور قاری ذکااللہ نے ادارہ کا تعارف پیش کیا۔
مہمان خصوصی نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ "دین اسلام ایک مکمل دین ہے۔اس سے پہلے تکمیل کا یہ ذکر باقی دوسری کتابوں(تورات،زبور ، انجیل )میں نہیں آیا. دین اسلام انسانوں کے لئے مکمل راہنمائی دیتا ہے ۔اس راہنمائی کے دو دائرے ہیں ۔ انسان کا اللہ تعالی سے تعلق اور انسانوں کا ایک دوسرےسے تعلق۔
1۔ اسلام نے عقائد(توحید ،رسالت اور آخرت )کے حوالے سے واضح دلائل دئے ہیں ۔
2۔ انسان کا اللہ سے تعلق اور اللہ تعالیٰ سے مانگنے کے طریقے کے لئے نظام عبادات بنایا گیا ہے۔
3۔نظام معاملات۔انسانیت کا باہمی تعلق کس بنیاد پر ہوگا ،قومی نظام وسائل کیسے پیدا کرے گا ، اس کا تقسیم کار کیا ہوگا، جان ومال کی حفاظت کس طرح ہوگی؟ ان چیزوں کا تعلق معاملات سے ہے۔ آجکاموضوع نظام عباداتسے تعلق رکھتا ہے ۔عبادت:انسان اور خدا کے درمیان بندگی کینسبت کو کہتے ہیں ۔
نظام عبادات انسان کی مرضی کے مطابق نہیں بلکہ ہر ایک عبادت اپنے مقررہ وقت پر ادا کرنے کیلئے با قاعدہ نظام بنایا گیاہے۔
نماز:نماز کے لئے ایسے اوقات مقرر ہوئےکہ ہر شعبے سےتعلق رکھنے والااور ہر عالم و جاہل اسے اسانی سے جان سکتا ہے۔ان تمام اوقات کے اندر اجتماعیت قائم کرنے کے لئے مساجد بنائی گئیں اور لوگوں کو بلانے کیلئے اذان کا اۤغاز ہوا۔ سب سے اعلیٰ بندہامامت کا مستحق قرارپایا۔ مقتدیوں کو پابند بنایا گیاکہ اپنیصفوں کو جہاد کے طرح مربوطبنایئں۔محلے کی سطح پرمسجد بنانےکا حکم دیا گیا۔ ایک خاندان کے لوگوں کو دن میں پانچ مرتبہ اجتماعیت قائم کرنے کا موقع ملتا ہے۔ اس طرح شہر کی سطح پر جمعہکیاجتماعیت قائم کرنے کا حکم ہوا۔ اورحکومتی نمائندہ،جج،گورنر وغیرہ کواس اجتماع سے خطاب کرنے کا پابند بنایا گیا۔ ان دونوں خطبوں میںحکومتی نمائندہاپنے پچھلے ہفتے کی کارکردگی اور آئندہ کے لائحہعمل کو بیان کرتے ،اس طرح سال بھر میں مختلف علاقوں سے لوگ عید کے موقع پر عیدگاہ تشریف لاتے ہیں تمام مردوخواتین اس میں شریک ہوتے ہیں۔
، نماز قائم کرنے کے نتیجے میں فحشاء ومنکرات کا خاتمہ ہوتاہے، معاہدات توڑنے کو فحشاءاور خلاف عقل کام کرنے کومنکرات کہتے ہیں.
روزہ:نفس کوتابع بنانے کیلئے روزہ فرض ہوا ( نفس کو ختم نہیں کیا جا تاکیونکہ نفس ختم ہونے کی صورت میں انسان خود ختم ہوجاتا ہے لیکن اسےمہذب بنا نااور تابع بنانامقصد ہے )۔روزے کا مقصد تقویٰ کا حصول ہےمتقیسے مراد، ہر غلط کام کو جان کر اسے ختم کرنااور ہر اچھے کام کو جان کراس پر عمل کرنااور اسے معا شرے میں قائم کرنے کیجدوجہد کرنا، تقویٰ کردار و عمل کا نام ہے،
زکواۃ۔ دولت کی مثال معاشرے میں خونکی طرحہے ہر انسان کے لئے اتنیدولت لازمی ہے کہ وہ اپنا گزر بسرآسانی سے کرسکے، ھوالذی خلق لکم ما فی الارض جمیعاً۔ کسی معاشرے کے وسائل کا حق تمام انسانوں کے لئے ہے،کسی شخص کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ قوم کےاجتماعی حقوق کوغصب کرے ، ایک غلط نظام میں معاشرے کے غریب افراد کو لوٹا جاتا ہے اور پھر زکواۃ اور صدقات کے نام پر غریب مرد و خواتین کو ذلیل کیا جا تا ہے ، ایسا نظام جو قوم کے اجتماعی حقوق کو اداکرنے میں ناکام رہے وہ نظام اس قابل ہے کہ اسے ختم کیا جائےاور اس کے خلاف انقلاب لایا جائے ۔
حج:حج ایک عظیم عبادت ہے ، یہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ محبت اور عشق کی اعلیٰمثالہے ، جب انسان نماز اور روزے کے نتیجے میں تقویٰ کے حصول میں کامیاب ہوجاتا ہے تو اس کے بعد وہ حج میں تقویٰ کے بنیاد پر اللہ تعالیٰ سے اپنی محبت کا اظہار کرتا ہے،
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں عبادات کے مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب بنائیں اور اس حوالے سے تمام رکاوٹیں ختم کریں ۔
رپورٹ: مولانا شفیع اللہ۔ سوات
1

2

3

4
