تفصیل
ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ (ٹرسٹ) لاہور کے زیراہتمام مورخہ 06 مئی 2023ء بروز ہفتہ بعد از نماز عصر آڈیٹوریم ہال، مفتی محمود لائبریری ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک شعوری سیمینار بعنون "تکریم انسانیت کا قرآنی تصوراور پاکستانی سماج کا جائزہ" کا انعقاد کیا گیا جس کے مہمان خصوصی ڈائریکٹر ایڈمن ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ ٹرسٹ لاہور مولانا مفتی محمد مختار حسن تھے۔
پروگرام کی صدارت مسند نشین خانقاہ عالیہ یسین زئی پنیالہ، ڈیرہ اسماعیل خان صاحبزادہ ڈاکٹر رشید احمد نے فرمائی جب کہ سٹیج پر صوبائی معاون کوآرڈینیٹر ادارہ رحیمیہ جناب انعام اللہ خان ، صوبائی کوآرڈینیٹر اکڈیمکس مولانا احمد علی اور ریجنل کوآرڈینیٹر بنوں جناب اصغرخان بھی موجود تھے۔ نظامت کے فرائض جناب ذیشان اللہ خان نے سرانجام دیے۔
پروگرام کا باقاعدہ آغاز تلاوت کلام مجید سے ہوا جس کی سعادت قاری محمد خالد نے حاصل کی۔ جس کے بعد پشتو زبان کے معروف شاعر پروفیسر ڈاکٹر طارق محمود دانش نے "مزدور کی عظمت" کے متعلق اپنے شعری کلام پیش کیا۔
سیمینار کے موضوع پر رہنمائی دیتے ہوئے مہمان خصوصی نے فرمایا کہ "اللہ تعالٰی نے انسان کو اپنے نائب اور خلیفہ کے طور پر تخلیق فرمایا ہے۔ اسی طرح اس میں روحانی اور طبعی خصوصیات اعلیٰ درجے پر رکھی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن حکیم میں انسان کو احسنِ تقویم کہا گیا ہے۔ انسان کی ان صلاحیتوں کے اظہار کے اعتبار سے یہ دو رخ ہمارے سامنے آتے ہیں۔انسان اتنی اعلی مخلوق ہے کہ اگر یہ اللہ کی طرف متوجہ ہو، اس کی عبادت کرے، اس کی مخلوق کی خدمت کرے تو اللہ تعالٰی کا نائب اور خلیفہ بن کر اس سے تعلق میں اتنا آگے نکل جاتا ہے کہ فرشتے بھی پیچھے رہ جاتے ہیں لیکن دوسری طرف جب یہی انسان اللہ کی نافرمانی کرتا ہے اللہ کے مقابلے پر آتا ہے تو جانور، درندوں اور شیطان سے بھی آگے بڑھ جاتا ہے۔"
قرآن کی پہلی سورت اور پہلی وحی مین انسان کے مقام کی حقیقت کو بیان کرتے ہوئے مہمان مقرر کا کہنا تھا کہ، "انسان کی تخلیق اور اس کی پیدائش کا عمل تو دوسرے جانوروں کی طرح ہی ہے لیکن انسان کو ذی عقل، ذی شعور پیدا کیا گیا ہے،اس کو کو پڑھنے کا، شعور حاصل کرنے کا حکم دیا گیا۔ پھر انسان کو قلم کے ذریعے علم سکھایا گیا کہ یہ علم کی حصول کا سب سے محفوظ ذریعہ ہے۔ اللہ تعالٰی نے اسی سورت کے اگلے حصے میں تین دفعہ تنبیہہ فرما کر یہ واضح کر دیا کہ انسان جب اپنی عظمتِ مقام کی معرفت اور علم کو کام میں لاکر درست عمل اختیار کرنے کی بجائے سرکشی اختیار کرتا ہےاور سوسائٹی کو تباہ ہ برباد کرتا ہے تو اس کی شکست اور تباہی یقینی ہے۔ قرآن اپنے ماننے والوں کو حکم دیتا ہے کہ ایسے عناصر کی ہرگز اطاعت نہیں کرنی بلکہ اپنے رب کے دیے گئے اس پیغامِ عظیم کو معاشرے میں قائم کرنے کے لئے اللہ رب العزت کے سامنے سر بسجود ہونا ہے اور اس کا قرب حاصل کرنا ہے۔"
مہمانِ خصوصی نے شرکاء پر واضح کیا کہ "اسی نظام کا ایک بہترین نمونہ ہمارے برعظیم پاک و ہند کے اندر مسلم نظام عدل کی صورت میں موجود تھا لیکن جب سولہویں صدی عیسوی میں انگریز سامراج نے اس علاقے کا رخ کیا تواس نے یہاں ہمارے اس نظام کو تہہ وبالا کردیا۔ اس نے یہاں کےعادلانہ زرعی نظام کو ختم کرکےجاگیرداری مسلط کی۔ یہاں کی صنعت و تجارت تباہ کی، ایسا تعلیمی نظام نافذ کیا جو صرف انگریز کےذہنی غلام اور آلہ کار پیدا کرتا تھا گویاایک بدترین غلامی اس خطے پر مسلط کردی گئی۔ اس سے بھی زیادہ افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ اس غلامانہ نظام کا تسلسل آج بھی موجود ہے گو طریقہ واردات بدل گیا ہے۔ آج براہ راست غلامی مسلط کرنے کی بجائے معاشی جکڑ بندی کےذریعے قوموں کی پالیسیوں کو کنٹرول کیا جاتا ہے اور ان کے وسائل کی خوب لوٹ کھسوٹ کی جاتی ہے۔ ساری دنیا بالخصوص کمزور اور محکوم اقوام کی معیشت کو ڈالر کی monoply قائم کرکے اپنے مذموم مفادات کے حصول کی حکمت عملی اختیار کی جاتی ہے۔ عجیب بات ہے کہ جب تک سامراج کے مفادات پورے ہوتے رہیں توبغیر کسی مستحکم معاشی نظام کے بھی ڈالر مستحکم رہتاہے اور جیسے ہی سامراجی مفادات پر ذر پڑتی ہےتو اقوام کی لگامیں کھینچ کر انہیں مفلوک الحال بنا دیا جاتا ہے۔ اس لئے آج ہمیں اپنے معاشرے پر مسلط اس سامراجی نظام کے تانے بانے کو سمجھنا ہے اور اس کے خاتمے اور دین اسلام کے بنیادی خدوخال سے آگہی حاصل کرکے اس کی اساس پر معاشرے کو زوال سے نکالنے کی جانب متوجہ ہونا ہے۔"
آخر میں آپ نے قرآنی تعلیمات کی روشنی میں دین اسلام کے نظام کی بنیادی اساسیات واضح کرتے ہوئے فرمایا کہ اسلام انسانی تکریم و ترقی کے لئے سماجی تشکیل کےیہ چار اصول پیش کرتا ہے۔
1۔ ہر قوم اور معاشرے کو اپنی زندگی گزارنے کی فیصلوں میں آزادی کا حامل ہونا۔
2۔ قدرتی و انسانی وسائل کو کام میں لاکر معاشی خوشحالی پیدا کرنے کے اقدامات کرنا۔
3۔ ہر انسان کی جان، مال اور عزت کی حفاظت کا پرامن سیاسی نظام قائم کرنا۔
4۔ بلا تفریق کل انسانیت کے لئے عدل وانصاف کو یقینی بنانا۔
آج ہماری اجتماعی زبوں حالی اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ ہم دین اسلام کے ان بنیادی اصولوں کی اساس پر آزادی، امن و استحکام، معاشی خوشحالی اور بلاتفریق عدل وانصاف کے قیام کی بھرپور جدوجہد اور کوشش کریں۔
سیمینار کا اختتام صاحبزادہ ڈاکٹر رشید احمد نے دعائیہ کلمات سے کیا۔
(رپورٹ: محمود الحسن مرتضٰی - پہاڑپور، ڈیرہ اسماعیل خان)