ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ راولپنڈی ریجنل کیمپس کے زیر انتظام بتاریخ 14 اکتوبر 2022 بروز جمعۃ المبارک بعد از نماز عشاء 7:30 بجے سٹی میرج ہال میں دعوتی سیمینار بعنوان "سماجی تبدیلی کا حقیقی تصور سیرت نبوی ﷺ کی روشنی میں" کا انعقاد کیا گیا۔ جس کی صدارت جناب ڈاکٹر خرم شہزاد نے کی جب کہ نظامت کے فرائض جناب عدنان محمود نے نبھائے، اسٹیج پر مرکزی و صوبائی نمائندگان مولانا قاضی محمد یوسف،مولانا ڈاکٹر تاج افسر اور جناب شہزاد احمد شاہ صاحبان موجود تھے۔
ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ ٹرسٹ لاہور کے ڈائریکٹر جنرل اور مسند نشین خانقاہ عالیہ رحیمیہ رائے پور حضرت اقدس مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری اورادارہ کے ڈائریکٹر ایڈمن مولانا مفتی محمد مختار حسن صاحب بطور مہمان خصوصی شریک تھے۔ چیئرمین انتظامیہ کی ذمہ داری جناب علی ظہیر صاحب نے نبھائی، سیمینار کا باقاعدہ آغاز 8:20 پرتلاوتِ قرآنِ حکیم سے ہوا تلاوت کلام پاک کے لئے قاری زاہد صاحب نے سورہ احزاب کی آیات تلاوت و ترجمہ فرمائیں۔ اس کے بعد ناظم اجلاس نے ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ کا تعارف پیش کرنے کے لئے مولانا مختار حسن صاحب کو دعوت دی جنھوں نے ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ قیام کے اغراض و مقاصد کے حوالے سے درج ذیل گفتگو فرمائی۔
پاکستان کا نظام تعلیم جو نظریاتی کمزوریاں پیدا کر رہا ہے اس کو دور کرنے کے لئے ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ کردار ادا کر رہا ہے۔ یہ ادارہ بطور ٹرسٹ کے کام کر رہا ہے، جو کسی کی ذاتی ملکیت نہیں۔ اس ادارے کا نام چار تاریخی شخصیات پر رکھا گیا یعنی حضرت اقدس شاہ عبد الرحیم دہلویؒ، حضرت شاہ عبد الرحیمؒ (جو سید احمد شہیدؒ کے قافلے میں تھے)، حضرت شاہ عبد الرحیم سہارنپوریؒ اور حضرت شاہ عبد الرحیم رائےپوریؒ۔
حضرت امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ اور دیگر بزرگان اس وقت تمام فرقوں کے متفق بزرگ ہیں۔ حضرت مجدد الف ثانیؒ اور امام شاہ صاحب کیپٹلزم اور سوشلزم سے پہلے کے بزرگ گزرے ہیں، اس لئے ان کی باتوں کو ان فلسفوں سے منسلک نہیں کیا جا سکتا، ان کی فکر خالص ہے۔ ادارہ رحیمیہ دین اسلام کا درست شعور نوجوانوں کو دینا چاہتا ہے۔ آج کے دور کے سائنسی اور عقلی اشکالات کا جواب امام شاہ ولی اللہؒ کی فکر میں موجود ہے۔ دین اسلام ایک مکمل نظامِ حیات ہے اور اس کی تفصیلات ادارہ رحیمیہ کے نصاب کا حصہ ہیں۔ ادارہ رحیمیہ تمام فرقوں سے بالاتر ہو کر دین اسلام کا مکمل نظام نوجوانوں کو پڑھاتا ہے۔
اس کے بعد ناظم اجلاس نے مہمان خصوصی حضرت مفتی عبدالخالق آزاد رائےپوری مدظلہ العالی کو دعوت دی، جنھوں نے مندرجہ ذیل گفتگو میں ہماری رہنمائی فرمائی۔
آج سماجی تبدیلی اس لئے ضروری ہے کہ ہمارا سماجی ڈھانچہ اس قوم کی سماجی ضروریات پوری نہیں کر رہا۔ ہمارا سماج 2 صدیوں سے برطانیہ کا غلام رہا ہے، ہمارا گورنر برطانیہ کو جواب دہ تھا، تقسیم کے بعد بھی ہم آج تک حقیقی تصور میں آزاد نہیں ہو سکے۔ لارڈ میکالے کا نظام تعلیم آج مدارس اور یونیورسٹیز میں غلام ذہن تیار کر رہا ہے۔ آج تک کے قوانین وہی برطانوی 1947 سے پہلے کے آج بھی لاگو ہیں۔ ماضی میں یہ قوانین ایسٹ انڈیا کمپنی کے تحفظ کرتے تھے اور آج اسی کمپنی کے تسلسل ملٹی نیشنل کمپنیوں کا تحفظ کرتے ہیں۔ ایسٹ انڈیا نے برصغیر کی دولت لوٹی اور آج یہ کمپنیاں پاکستان کے وسائل لوٹ رہی ہیں۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں سماج کی ہوبہو یہی صورت حال تھی۔ قومی سطح پر ابو جہل کا نظام اور بین الاقوامی سطح پر قیصر و کسری کا نظام موجود تھا۔ ظلم اور لوٹ مار کا ماحول تھا۔ اس کے خلاف نبی پاک ﷺ نے قبل از نبوت ہی سماجی تبدیلی کا اعلان کر دیا جیسا کہ ہمارے سامنے حلف الفضول کا معاہدہ موجود ہے۔ نبی پاک نے بعد از نبوت مکہ مکرمہ میں جماعت سازی کا عمل شروع کیا جو 13 سال تک جاری رہا اور پھر مدینہ میں 10 سال۔ اس عرصے میں پورے عرب سے ظلم کا خاتمہ کر کے عدل کا قیام کر دیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس سیرت کا انکار کوئی نہیں کر سکتا۔ آپ کی پوری زندگی سماجی تبدیلی کے لئے گزری ہے۔
آج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذاتی کمالات کا تو ذکر ہوتا ہے لیکن آپ ﷺ کا وہ اسوہ جو معاشرے میں عدل کے قیام کے لئے ہے اس کا ذکر بہت کم کیا جاتا ہے۔ آج ان تمام درپیش مسائل سے نکلنے کا واحد حل سیرت النبی ﷺ سے رہنمائی لے کر ایک منظم جماعت بنانا ہے اور اس جماعت کے ذریعے ایک عادلانہ نظام قائم کرنا ہے تاکہ ہم درست معنوں میں آزاد ہو سکیں۔
ناظم اجلاس نے مہمان خصوصی کا شکریہ ادا کیا اور استقبالیہ کو شرکاء میں کمنٹس سلپس تقسیم کرنے کا کہا۔ دوستوں نے واپس جاتے ہوئے کمنٹس سلپس استقبالیہ ڈیسک پر واپس دیں۔ ازاں بعد مجلہ رحیمیہ دوستوں میں تقسیم کیئے گئے۔
آخر میں ناظم اجلاس نے تمام شرکاء، انتظامیہ اور مہمانانِ خصوصی کا شکریہ ادا کیا، سیمینار کے اختتام 10:30 پر مہمان خصوصی نے دعا فرمائی۔
رپورٹنگ: جنید احمد شاہ، محمد حارث خان