28 نومبر 2021 ء بمطابق 23 ربیع الآخر1443ھ بروز اتوار خیبر پختون خوا،ضلع مردان کے دور افتادہ گاؤں قاسمی میں ادارہ رحیمیہ علومِ قرآنیہ پشاور کیمپس کی زیرِ نگرانی "سماجی مسائل اور ان کا قرآنی حل" کے موضوع پر ایک شعوری سیمینار کا اہتمام ہوا۔
سیمینار کے مہمانِ خصوصی مولانا مفتی محمد مختار حسن(ڈائریکٹر ایڈمن ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ) تھے۔
مہمانِ خصوصی نے شرکاء سیمینار کے خطاب کرتے ہوئے فرمایا،" بَہ حیثیتِ نوجوان،مسلمان اور ذمہ دار پاکستانی شہری یہ ہمارا قومی اور دینی فریضہ بنتا ہے کہ سماجی مساٸل کا ادراک حاصل کریں۔ ان مساٸل کے حقیقی اسباب جان لیں، مساٸل کے درست ممکنہ حل اور اس حل میں اپنے کردار کا تعین کریں۔
سماجی مساٸل میں سے سب سے اول اور بڑا مسٸلہ قومی عدم خود مختاری ہے کہ ہم اپنے فیصلوں،داخلہ و خارجہ پالیسی،عدالتی،تعلیمی نظام وغیرہ میں مکمل طور پر آزاد نہیں۔ آج دنیا کے فیصلوں کی طاقت ویٹو پاور کے پاس ہے، جس کے فیصلے پوری دنیا پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔ فرعون نے یہی کیا تھا ۔قرآن نے اس کے لیے”طغیٰ” کا لفظ استعمال کیا ہے یعنی جو سرکشی کرے، قومی خود مختاری سلب کرے، غلامی اور محکومی کے قعرِ مذلت میں پہنچاۓاور فساد فی الارض برپا کرے۔اس لیے موسیٰ علیہ السلام کا فرعون سے ایک ہی مطالبہ ”اَن ارسِل معیَ بنی اسراٸیل” (بنی اسراٸیل کی آزادی) کا تھا۔
دوسرا بڑا بنیادی مسٸلہ سرمایہ داری اور سود پر مبنی معیشت ہے جس نے سماج میں طبقات قاٸم کر رکھے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے سب سے پہلے بجٹ کا دس کروڑ خسارہ آج کھربوں تک پہنچا ہے۔
تیسرا بڑا مسٸلہ غلامی کے دور کا طبقاتی نظامِ تعلیم ہے جو ایسٹ انڈیا کمپنی نے ایک غلام قوم کو غلام رکھنے کے لیے قاٸم کیا تھا۔ یہی نظام تعلیم آج بھی وطن عزیز پاکستان میں قاٸم ہے ۔
چوتھا بڑا سماجی مسٸلہ اس ملک کی طبقاتیت پر مبنی سیاست ہے جس نے تقسیم درتقسیم کے ذریعے معاشرے کو فرقوں میں بانٹ دیا ہے۔ یاد رہے کہ سورة القصص میں یہی فرقوں میں بانٹنے کی خصلت (وَ جعلَ ھلھا شِیعاً) فرعونی نظام کی خصلت بیان کی گٸ ہے۔ سیاست کا بنیادی کام حقوق کے تحفظ کا ہے جو جان مال اور عزت کا تحفظ کرتی ہے لیکن”عدم تحفظ اور بد امنی” وطن عزیز کی سیاست کا وتیرہ بن گیا ہے۔“
ان مساٸل کا حل یہی ہے کہ اس ظالمانہ نظام سے انسانیت کو چھٹکارا دلایا جاۓ۔ یہی اسوہ طیبہﷺکا درس ہے کہ آپ ﷺ نے مکی دور میں حکومت میں حصہ لینے کی آفر کو ٹھکرا کر اس کے خلاف مزاحمتی نظریہ پر جماعت بناٸی۔"
مولانا صاحب نے فرمایا کہ "یہ غیر آٸینی اور غیر اخلاقی رویہ ہے بلکہ ایک انتہا ہے کہ پُر تشدد رہ کر فوج اور پولیس کے مظلوم سپاہیوں سے بدلہ لیا جاۓ یا قومی املاک کو نقصان پہنچایا جاۓ۔ دوسری انتہا اور غلط اندازِ فکر و عمل یہ ہے کہ اپنے آپ کو اس قعرِ مذلت کے سپرد کیا جاۓ۔ تیسرا غلط اندازِ فکر و عمل یہ ہے کہ اسلام کے نام لیوا یورپ سے مرعوب ہو جائیں اور مذہب بیزار بنیں۔"
مولانا مفتی صاحب نے نوجوانوں پر زور دیا کہ وہ اس ظالمانہ نظام اور اس کے متبادل دینی عادلانہ نظام کا شعور حاصل کریں کیوں کہ ظلم کے نظام کے خلاف مزاحمتی نظریہ پر شعور کا پیدا ہونا اس کے زوال کی اولین نشانی ہے نیز نوجوان اسی نظریے پر ذہنی طور پر متفق ہو کر ایک منظم اجتماعیت کا حصہ بنیں۔
موضوع پر بریفنگ کے بعد متعلقہ موضوع پر شرکا کی طرف سے سوالات ہوۓ جن کے تسلی بخش جوابات دیے گٸے۔ اس سیمینار میں نوجوانوں کی ایک کثیر تعداد نے دل جمعی سے شرکت کی۔
”نٸے شعور کے چرچے ہیں چار سو اختر
مجھے یقیں ہے یہ کُہنہ سماج بدلے گا”
رپورٹ:حافظ ایوب قاسمی۔مردان