25 ستمبر 2024، بروز بدھ، بوقت بعد نماز مغرب
تمام انبیاء کرام کی بعثت ایسے وقت میں ہوئی ہے جب معاشرے میں عمومی فساد رونما ہوا، بدخلاقی پیدا ہوئی اور انسانیت کے حقوق دھڑلے سے توڑے جانے لگے اور معاشرے کا ارتقائی عمل زوال پذیر ہوگیا۔
ان خیالات کا اظہار ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ ٹرسٹ پاکستان کے ریکٹر ممتاز دانشور و مصنف شیخ التفسیر مفتی مختار حسن نے بحیثیت مہمان خصوصی ادارہ رحیمیہ پشاور کیمپس کے وسیع ہال میں جناب خالد خان کی صدارت میں منعقدہ سیرت النبی سیمینار میں شرکاء کی کثیر تعداد سےخطاب کرتے ہوئے کیا۔ تلاوت کی سعادت قاری وصال نے حاصل کی اور پروفیسر کاشف حسن نے نظم پڑھی
سیمینار میں نوجوانوں کے علاوہ علماء کرام تاجر برادری وکلا اور ڈاکٹرز کی کثیر تعداد نے شرکت کی
سیمینار میں جناب ثاقب محفوظ نے بحیثیت مہمان اعزازی شرکت کی
انہوں نے کہا کہ ایسے مواقع پر انبیاء کرام علیہم الصلواۃ والسلام آکر انسانی معاشروں کے ارتقا کے بند دھارےکو کھولا کرتے ہیں، انسانی حقوق بازیاب کرتے ہیں اور انسانی معاشرے کے ارتقاء کو آگے کی طرف بڑھاتے ہیں، بد اخلاقی دور کر کے اعلی' اخلاقیات پر مبنی معاشرے قائم کرتے ہیں.
آپ نے اپنے مزید فرمایا کہ اگر دیگر انبیاء کرام کی سیرت کا بالعموم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا بالخصوص جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے اتی ہے کہ انبیاء کرام انسانیت کو ابو جہل، فرعون، ہامان اور قیصر و کسری' جیسے جابر اور مستبد طاقتوں کے نظام سے چھڑانے کے لیے اور ایسے نظام کی تشکیل کے لیے اتے ہیں کہ اس میں انسانوں کو وقار حاصل ہو اور انسانیت عامہ کو کوئی سرمائے کی طاقت پر اپنی حقوق سے محروم نہ کر سکے.
آج سیرۃ النبی کا اہم ترین تقاضہ اس سرمایہ داری نظام کا خاتمہ ہے جس کی جڑیں برطانوی سامراج کے دور غلامی کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں، جس کی وجہ سے آج بھی ہمارے مستقبل کے فیصلے عالمی مالیاتی ادارے اور بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کررہی ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ دین اسلام کو بطور نظام حیات غالب کرکے سماجی تشکیل اسکے وضع کردہ اصولوں کیمطابق کیجائے جیسا کہ ہمارے دور عروج میں کرکے دکھایا گیا ہے تاکہ تمام ادھیان کو باور کروایا جاسکے کہ دین اسلام درحقیقت تا قیامت انسانی سوسائٹی کی رہنمائی کی اہلیت و استعداد رکھتا ہے اور اسکا پیش کردہ نظام حیات کل انسانیت کی فلاح کا پروگرام ہے۔
رپورٹ: شہاب الدین بنگش۔ پشاور