رمضان المبارک اور عید سعید کے انسانی زندگی پر اثرات

ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ ٹرسٹ لاہور کی سوات شاخ  کے زیراہتمام  30 اپریل 2023ء کوملاکنڈ ریجن میں بمقام دی ٹاون سکول ٹاون شپ سوات میں ایک پروقار عید ملن پارٹی کا اہتمام کیا گیا جس کے مہمان خصوصی مولانا مفتی محمد مختار حسن (ڈائریکٹر ایڈمن ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ) تھے۔

”رمضان المبارک اور عید سعید کے انسانی زندگی پر اثرات“ کے موضوع پرخطاب کرتے ہوئےمہمان خصوصی نے فرمایا کہ، "عید مسلمانوں کی خوشی کا سب سے بڑا دن ہے۔ ہر قوم کی ایک عید ہوتی ہے مثلً افرعون کا اپنے یومِ عید کے دن” یوم الذينه “ کو موسیٰ علیہ السلام اور جادوگروں کے درمیان مقابلہ ہوا۔ حضرت ابراھیمؑ نے بھی نمرودی قوم کے عید کے دن ہی بت توڑے تھے۔  حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ ہر قوم کی ایک عید ہوتی ہے اور ہماری ایک عید، عیدالفطر ہے اور دوسری عیدالاضحٰی۔ عیدالفطر ہم رمضان المبارک کے فوراً بعد مناتے ہیں۔"
مہمانِ خصوصی نے شرکاء کی راہنمائی کرتے ہوئے مزید فرمایا کہ،"جب انسان پر بہیمیت کا غلبہ ہوتا ہے توانسان جانوروں جیسا عمل کرتا ہے اورخواہشات کے تابع ہوکر زندگی بسر کرتا ہے۔ روزہ کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ انسان اپنی بہیمی خواہشات کو کنٹرول کرے اور ملکیت کو مضبوط کرکے فرشتوں سے مشابہت پید ا کرے۔ احکاماتِ خداواندی کو بجالاتے ہوئے انسانی خدمت کا فریضہ سرانجام دے اس کے لیے روزہ ایک ٹریننگ ہے جس کے ذریعے انسانوں میں یہ کمالات پیدا ہوتے ہیں۔ اسی طرح رمضان المبارک وہ عظیم مہینہ ہے جس میں تمام انبیاءعلیہم السلام کی علوم کی تکمیل قرآن حکیم کی صورت میں نازل ہوئی جو کہ دراصل حقیقی معنوں میں انسانیت کی کامل کامیابی اور ترقی کا بنیادی دستورالعمل ہے۔
عید الفطر کی مثال ایسی ہے جیسے ہم ڈگری حاصل کرنےکے بعد خوشیاں مناتے ہیں ۔ لیکن کیا خوشیاں منانے کے بعد ہم ڈگری کو پھینک دیتے ہیں؟ ہرگز نہیں! بلکہ اس ڈگری ہولڈر کا معاشرے میں ایک کردار ہوتا ہے اور وہ اپنی ڈگری کے ذریعے حاصل کردہ مہارت کو کام میں لاکر اپنی عملی زندگی کے مسائل حل کرتا ہے۔ عید کے دن بھی گویا ہمیں عید کے دن رمضان کے روزوں کی مشقت اور قرآن حکیم کی تلاوت اور اس کے پیغام کو سمجھنے کے عوض ایک خوشی ملتی ہے۔ اس لحاظ سے عید منانے کا مقصد یہ سامنے آتا ہے کہ ہم معاشرے سے حیوانیت پر مبنی اخلاق یعنی  فرقہ واریت ، نسل پرستی ، مفاد پرستی، انفرادیت پسندی اور ظلم وجبر کا خاتمہ کریں اور ملکیت کے تقاضوں یعنی للہیت، خدمت انسانیت اور دین اسلام کے نظام عدل کے قیام کے لئے بھرپور جدوجہد اور کوشش کریں۔"
تاریخ اسلام کی روشنی میں راہنمائی کرتے ہوئے فرمایا کہ،"رمضان المبارک کی اہمیت اس اعتبار سے بھی ہے کہ تاریخ اسلام کا ایک انتہائی اہم ترین معرکہ کہ جس میں آپ ﷺ اور جماعت صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے 17 رمضان المبارک سنہ 2 ہجری میں قریش کے قائم کردہ نظام کو ایک ایسی شکست فاش سے دوچار کیا کہ جس کے بعد اس کی بنیادیں اتنی کمزور ہوگئیں کہ وہ دوبارہ اتنی طاقت سے ابھرنے کے قابل نہ رہا۔ مسلمانوں نے اسی عظیم معرکے میں فتح یابی کے بعدہی پہلی عید منائی تھی۔ اسی طرح ہم بھی اگست کے مہینے میں ہرسال بظاہر اپنی قومی آزادی کی خوشی میں ایک دن مناتے ہیں لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ ہم حقیقی معنوں میں آج تک آزاد نہیں ہوئے بلکہ کالونیلزم (انگریز کی براہ راست حکمرانی ) سے نکل کر جدید کالونیلزم (سامراج کے پیدا کردہ آلہ کار طبقے کی حکمرانی)  کا شکار ہوگئے اور نوآبادیاتی دور کا وہی فرسودہ نظام آج بھی ہماری سوسائٹی پر مسلط ہے۔ اس لئے آج عید کا پیغام یہ بھی ہے کہ اس غلامی کے خلاف ہم حریت وآزادی کا شعور پیدا کریں اور دین اسلام کے غلبے کے لئے عملی جدوجہد اور کوشش کریں۔"
اس پروگرام کی صدارت نورالرحمن کاکا(صوبائی کوآرڈینیٹر اکیڈیمکس) نے کی۔ نظامت کے فرائض جناب نصراللہ خان نے سرانجام دیے۔ تلاوت کلام پاک کی سعادت قاری عزیزالرحمن نے حاصل کی جس کے بعد جناب شہاب خان نے حمد باری تعالی اورجناب  سہیل خان نے نعت رسول مقبولﷺ پیش کی۔
مہمانِ خصوصی کے خطاب سے قبل قاری ذکاءاللہ (ریجنل کوآرڈینیٹر اکیڈیمکس) نے ادارہ رحیمیہ کا تعارف پیش کرتےہوئے کہا کہ اس ادارے کا بنیادی مقصد دین اسلام کی تعلیمات کو جدید دور کےتقاضوں کے مطابق نسلِ نو کے قلوب واذہان میں منتقل کرکے ان کی فکری واخلاقی تربیت کرنا ہے اور انھیں سوسائٹی کا ایک مفید، ذمہ دار اور کارآمد شہری بنانا ہے۔ 

(رپورٹ: سمیع الحق - سوات)