ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ (ٹرسٹ) لاہور، کراچی کیمپس کے زیر اہتمام 27 اگست 2023ء بروز اتوار ادارہ رحیمیہ کراچی کیمپس میں پروفیشنل حضرات (ڈاکٹرز، انجینئرز،وکلاء و پروفیسرز) کے لئے ایک شعوری دعوتی سیمینار کا انعقاد کیا گیا جس کا عنوان تھا "پاکستان میں معاشی سیاسی سماجی عدم استحکام اور ان کا حل"۔ سیمینار کا آغاز دن 12:00 بجے ہوا۔ سیمینار کی صدارت انجینئرآصف رضا میمن (صوبائی ڈپٹی کوآرڈینیٹر صوبہ سندھ و بلوچستان) اور نظامت جناب اسد اقبال (ریجنل ڈپٹی کوآرڈینیٹر، کراچی) نےکی۔ تلاوتِ کلام پاک کی سعادت ڈاکٹر حسن زیب نے حاصل کی۔
موضوع "ولی اللہی جماعت کا تعارف اور خدمات" پر مولانا مفتی عبدالمتین نعمانی (صدر ادارہ رحیمیہ) نے حاضرین راہنمائی فرمائی۔
سیمینار کے مہمان خصوصی حضرت مفتی شاہ عبدالخالق آزاد رائے پوری(ناظمِ اعلیٰ ادارہ رحیمیہ) نے ملکی حالات پر گفتگو کرتے ہوئے فرمایا کہ، " آج ہمیں شعوری انداز سے تجزیہ کرنا چاہیے کہ ہمارے وطن کی صورتِ حال کیا ہے؟ ہم اپنے ملک کو کیسے درست سمت میں لے جا سکتے ہیں؟ بطور مسلمان ہمارا یقین ہے کہ کتاب مقدس قرآنِ حکیم قیامت تک رہنمائی کی کتاب ہے۔ حضور محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم آخری نبی ہیں اور آپ کا پیغام قیامت تک کے لیے ہے۔ اس کے باوجود ہم اس کتاب کے اثرات اور نتائج سے محروم ہیں۔ ہمیں سیاسی پارٹیوں، گروہیتوں اور فرقوں کے دائرے سے اوپر اٹھ کر انسانی نقطہ نظر سے غوروفکر کرنے اور تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔ قرآن بلا تفریق رنگ، نسل مذہب تمام انسانوں کے لئے ہدایت کی کتاب ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم تمام جہانوں کے لیے رحمت ہیں اور اللہ تمام جہانوں کا رب ہے صحابہ کرام تمام انسانوں پر شہداء اور نگران ہیں اسی طرح مسلمان جماعت کی ذمہ داری ہے کہ وہ تمام انسانیت کی چوکیداری اور نگرانی کا فریضہ سرانجام دے۔ لیکن مسلمان جماعت اج خود خطرے میں ہے اور خوف اور دہشت میں مبتلا ہے۔"
مہمان خصوصی نے مزید فرمایا کہ، "ریاست قائم ہی سوشل معاہدات پر ہوتی ہے سیاسی معاشی عمرانی معاہدات کا توڑنا کسی صورت بھی درست عمل نہیں ہے۔ قرآن نے سورۃ نحل میں مثالی معاشرہ کا نقشہ کھینچا ہے کہ معاشرہ میں امن ہو لوگ اطمینان کی زندگی گزارتے ہوں، ان کی معاشی ضروریات ہر طرف سے وافر مقدار میں ان تک پہنچتی ہوں یعنی اس معاشرے کی صنعت، زراعت اور تجارت آسودہ حال ہو اور اس کے برعکس ظلم کے نظام میں جان، مال، عزت اور آبرو کا خوف اور بھوک کا خوف سوسائٹی پر مسلط ہو جاتا ہے۔ غلام قوم عدل، امن اور خوشحالی کا نظام نہیں قائم کر سکتی وہ تو اپنے آقا کی غلام ہوتی ہے جس حال میں آقا چاہے اسے رکھے۔ مسلمانوں کے دور عروج میں ان کی حکمرانی چار بنیادی اصولوں، آزادی، عدل، امن اور معاشی خوشحالی پرتھی لیکن جب سے اغیار کی غلامی اختیار کی ہے یہ بنیادی اصول ختم ہو گئے۔"
حضرت اقدس مدظلہ نے نوجوانوں کی توجہ تاریخ کی جانب مبذول کراتے ہوئے فرمایا کہ، "ایسٹ انڈیا کمپنی نے معاہدات کو توڑ کر ہندوستان کو غلام بنایا۔ سراج الدولہ، ٹیپو سلطان کو شکست دی بنگال، میسور، دلی پنجاب اور سندھ پر معاہدات کو توڑ کر قبضہ کیا۔ 1857ء کی جدوجہد آزادی کے بعد فروری 1858 میں برٹش شہنشاہیت نے براہ راست غلامی اپنے ہاتھ میں لے لی اور اگست 1947 تک برٹش شہنشاہیت نے براہ راست حکومت کی اور خوف کا سیاسی نظام بھوک کا معاشی نظام اور عدل کے بجائے ظالمانہ قوانین بنائے۔
دنیا کی کل دولت کے 25 فیصد کا مالک ہندوستان جب انگریز 1947 میں چھوڑ کر گیا تو دنیا کی کل دولت کے دو فیصد کا مالک تھا اور صرف پاکستان 60 کروڑ پاؤنڈز کا مقروض تھا اور دولت اور وسائل کو کسی قانونی اور تجارتی ذریعے کے بجائے لوٹ کر برطانیہ منتقل کیا گیا یہاں کے عدل و انصاف کے قوانین ختم کر کے سفاک و غیر مہذب قوانین قائم کیے۔ برطانیہ نے اپنے ہاں 1857 کا پولیس ایکٹ نافذ کیا اور ہندوستان میں غلام اقوام کو ڈیل کرنے کے لیے 1861 کا پولیس ایکٹ نافذ کیا نوجوان ان دونوں قوانین اور ایکٹ کا تقابلی مطالعہ کریں۔"
آپ نے مزید راہنمائی فرمائی کہ،" قرآن ہمیں اپنے حالات پر غور و فکر کی بارہا دعوت دیتا ہے اپنی حالت کو تبدیل کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ کیا ہم اس نظام کو بدلنا چاہتے ہیں یا عارضی طور پر مفادات اٹھانا چاہتے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیں، اپنی سوسائٹی کا درست تجزیہ کریں، شعوری منظم اجتماعیت تشکیل دینا مسلمان کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ ہمیں حضرت ابراہیم علیہ السلام حضرت موسی علیہ السلام اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سیرت پر غور کرنا ہوگا کہ جس طرح آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے چار اصولوں پر مدینہ منورہ میں نظام قائم کیا۔ ابو جہل کے ساتھ شراکت اقتدار سے انکار کر دیا، یاد رکھیں! نعروں سے تبدیلی نہیں آتی تبدیلی سب سے پہلے اپنے وجود میں اتی ہے۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنا شعور بلند کریں، جذباتیت کو اختیار نہ کریں نہ بزدلی اختیار کریں بلکہ عدم تشدد کی بنیاد پر مزاحمتی نظریہ اور مزاحمتی اجتماعیت پیدا کریں۔"
"اس نظام کی خرابی کسی فرد یا ادارے پر نہیں ڈالی جا سکتی بلکہ یہ 200 سالہ تاریخی تسلسل ہے غلامی کے نظام کا۔ ہمیں اج شعور اختیار کرنے کی ضرورت ہے اور شعور کی اساس قرآن حکیم ہے یہ کتاب آئینی دستور ہے اور عقلی بصیرت بلند فکری اور اعلی درجہ کا تجزیہ کرنے کی صلاحیت پیدا کرتی ہے۔ ہم پر فرض ہے کہ ہم قرآن کو شعور کے نقطہ نظر سے مطالعہ کریں تو یقینا ایک دنیا ہم پر روشن ہو جائے گی۔"
3:00 بجے سیمینار کی تکمیل حضرت اقدس نے تکمیلی دعا سے فرمائی۔
رپورٹ: شفیق تنولی۔ کراچی